0
Wednesday 2 Aug 2017 02:42
علماء اب مدارس تک محدود نہیں بلکہ سلسلہ تبلیغ کو پھیلا رہے ہیں، جسکے ثمرات جلد سامنے آئینگے

بشارت عظمٰی کانفرنس کے اغراض و مقاصد کی تائید تمام تشیع نمائندہ تنظیموں نے کی ہے، مولانا محمد افضل حیدری

بشارت عظمٰی کانفرنس کے ذریعے ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے جا رہے ہیں، جو تمام علماء و ذاکرین کیلئے رہنماء ہو
بشارت عظمٰی کانفرنس کے اغراض و مقاصد کی تائید تمام تشیع نمائندہ تنظیموں نے کی ہے، مولانا محمد افضل حیدری
مولانا محمد افضل حیدری صاحب ایک جانی پہچانی دینی و علمی شخصیت ہیں۔ دینی تعلیمات کے حوالے سے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا محمد افضل حیدری وفاق المدارس الشیعہ کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں، جبکہ جامعۃ المنتظر لاہور میں ایک طویل عرصے سے تدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر سرگودھا سے تعلق رکھتے ہیں۔ آیت اللہ حکیم سے درس فیض حاصل کرچکے ہیں۔ جامعۃ المنتظر کے زیراہتمام بشارت عظمٰی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز نے اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد کے حوالے جامعۃ المنتظر کے سینیئر مدرس مولانا محمد افضل حیدری صاحب کیساتھ ایک مختصر نشست کا اہتمام کیا۔ جسکا احوال انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان فرمائیں۔؟
مولانا محمد افضل حیدری:
بشارت عظمٰی کانفرنس کے اغراض و مقاصد کوئی زیادہ لمبے چوڑے نہیں ہیں۔ اس کانفرنس کا ایک ہی مقصد اور یک نکاتی ایجنڈا ہے، وہ یہ کہ مکتب اہلبیت (ع) کی مسلمہ تعلیمات، تشیع عقائد کا دفاع کرنا اور جو عناصر یا گروہ مذہب حقہ کی تعلیمات اور حقیقی تشیع عقائد کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں، تشیع عقائد کے خلاف سرگرم ہیں، ان کا راستہ روکنے کیلئے لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ اس کانفرنس میں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات، تشیع عقائد کے حوالے سے ایسا اعلامیہ مرتب کرنا چاہتے ہیں کہ جو تمام علماء، ذاکرین کیلئے رہنماء ہو۔ اس کانفرنس کے ذریعے مذہب حقہ کا نقطہ نظر اور خطباء کیلئے ضابطہ اخلاق پیش کیا جائے گا۔ جس میں مجالس کے حوالے سے رہنما اصول دیئے جائیں گے، کیونکہ یہ امر بہرحال انتہائی افسوسناک ہے کہ سٹیج و منبر سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ خطابات سامنے آرہے ہیں، جو کہ کسی طور مذہب حقہ کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ باعث عار ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے ان حدود و قیود کو عوام الناس تک پہنچانا بھی مقصود ہے، تاکہ عوام بھی یہ جان اور سمجھ سکیں کہ ان سے ہٹ کر جو بھی پیش کیا جا رہا ہے، وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر مذہب حقہ نہیں۔ بشارت عظمٰی کانفرنس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تبلیغات اور مذہب کی آبرو کے حوالے سے بزرگ علماء و قائدین اظہار خیال کریں گے۔ یہ کانفرنس اس کار خیر کے سلسلے کی ابتداء ہے۔

اسلام ٹائمز: بشارت عظمٰی کانفرنس میں کتنی تشیع جماعتوں و انجمنوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور ان میں سے کتنوں نے شرکت کی حامی بھری ہے۔؟
مولانا محمد افضل حیدری:
ہم نے اس کانفرنس میں تمام تشیع نمائندوں تنظیموں کو بلاتفریق دعوت دی ہے۔ علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب سمیت تمام جماعتوں سے رابطہ کیا ہے، یہاں تک کہ ان افراد اور تنظیموں سے بھی رابطہ کیا ہے کہ جن سے ہمارا اختلاف بھی ہے۔ تاحال کسی نے شرکت سے انکار نہیں کیا۔ ہم نے حامد علی موسوی صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اس کانفرنس کی غرض و غایت سے انکار نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کی اور اسے ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے اپنے تعاون کا بھی یقین دلایا اور کہا کہ اس کانفرنس میں شرکت شائد ممکن نہ ہو۔ کچھ سفری مسائل اور کچھ مصروفیات کے باعث، البتہ اس حوالے سے ہونیوالی کوششوں میں ان کی حمایت بھی شامل ہے۔ اختلاف کے باوجود میں نے خود غضنفر تونسوی سے بات کی، انہیں شرکت کی دعوت دی۔ اس کانفرنس میں بلااستثنٰی سب کو شرکت کی دعوت اس لئے دی کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارا موقف نہیں لیا گیا۔

اسلام ٹائمز: مجالس کے سٹیج کو استعمال کرکے نصیریت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیا عوامل ہیں اور اسکے پشت پناہ کون ہیں۔؟
مولانا محمد افضل حیدری:
دیکھیں عزاداری سیدالشہداء پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، تبلیغی مجالس عزا درسگاہ کا درجہ رکھتی ہیں، جنہیں محفوظ بنایا جانا ضروری ہے۔ جہاں تک سٹیج سے غلط پیغام جانے کی بات ہے تو اس کے مختلف محرکات ہیں۔ میں ایک طالب علم ہوں اور کوئی اندازے نہیں لگاتا۔ اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ جہالت ہے۔ جہالت کے باعث سٹیج حسینی سے ایسا پیغام جا رہا ہے جو کہ تشیع عقائد سے متعلق نہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں نے باقاعدہ دین کی تعلیم حاصل ہی نہیں کی۔ دین پڑھا پڑھایا کے بجائے سنا سنایا ہے، جس کی بنیاد پر وہ لاعلمی میں اپنے عقائد کے خود ہی معمار بن بیٹھے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ کچھ لوگوں کا مطمع نظر دین اسلام توحید و رسالت نہیں، تعلیمات اہلبیت علیہم السلام نہیں بلکہ ان کا مطمع نظر روپیہ پیسہ ہے۔ دنیا کی محبت نے انہیں جائز و ناجائز کی تفریق سے دور کر دیا ہے۔ اس کے بعد ان بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہے، جو تشیع کے اندر تفریق در تفریق چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک پالیسی پر عمل پیرا ہیں، مگر ایسے عناصر کم ہیں۔ بنیادی وجہ تعلیمات دین سے دوری اور جہل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے فرمایا کہ بنیادی وجہ جہالت ہے، کیا جہالت کا خاتمہ علماء حق کی ذمہ داری نہیں۔؟ اور دین اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کی دوری کیوجہ کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ علماء نے اپنی تبلیغ کی ذمہ داری بطریق احسن انجام نہیں دی۔؟
مولانا محمد افضل حیدری:
بالکل اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، علماء نے اپنے تئیں کوششیں کیں، مگر جس پیمانے اور تسلسل کیساتھ سلسلہ تبلیغ کو لیکر چلنا چاہیئے تھا، اس پیمانے پر کام نہیں ہوا۔ پہلے درس و تدریس کو زیادہ اہمیت و حیثیت حاصل تھی، تاہم اب تبلیغ کی حیثیت اور افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اب علماء مدارس تک محدود نہیں۔ اب علماء نکل رہے ہیں، شکر الحمدللہ کہ مدارس سے ایک بڑی تعداد علماء کی باہر آرہی ہے۔ اب سلسلہ تبلیغ کو پھیلا رہے ہیں اور تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی شک نہیں کہ غیر ذمہ دار عناصر سے منبر و سٹیج آزاد کرا لیں۔

اسلام ٹائمز: جہاں تک منبر و سٹیج کی بات ہے تو علماء اور ذاکرین کے مابین خلاء مسلسل بڑھ رہا ہے، کیا وجہ ہے اور اسے کیسے پر کیا جا سکتا ہے۔؟
مولانا محمد افضل حیدری:
دیکھیں بات یہ ہے کہ دونوں جانب سے کچھ نہ کچھ خامیاں خرابیاں موجود ہیں، جن کا ادراک کرکے انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھے اچھے ذاکرین بھی ہیں اور بہترین علماء بھی جو دین حق کی تبلیغ اور حقیقی تشیع عقائد کے پرچار میں مصروف ہیں اور اپنا فرض سمجھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تو امید ہے کہ بشارت عظمٰی کانفرنس اس نوع کے مسائل کے حل میں معاون و مددگار ثابت ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا اس ایک کانفرنس سے یہ تمام مسائل حل اور مشکلات ختم ہو جائینگی۔؟
مولانا محمد افضل حیدری:
بشارت عظمٰی کانفرنس بارش کا پہلا قطرہ ہے، جو کہ شیعہ عقائد کے تحفظ اور دفاع کیلئے ہے۔ یہ سلسلہ ملک کے طول و عرض میں دراز ہوگا۔ مجھے پاراچنار سے بانیان مجالس کی ٹیلی فون کالز آئی ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ ہمیں دعوت کیوں نہیں دی گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس ایک کانفرنس سے تمام مسائل ختم نہیں ہوں گے، مگر یہ جو سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے، یہ عقائد کی محافظت کے حوالے سے کارآمد ثابت ہوگا۔ حقیقی تشیع عقائد کو عوامی سطح پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس پہلی کانفرنس سے تشیع پلیٹ فارم سے مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یہ بتانا مقصود ہے کہ حقیقی تشیع عقائد کیا ہیں اور سٹیج سے کیا پیش کیا جا رہا ہے، لہذا تشیع سٹیج سے جو لوگ غلط پرچار کر رہے ہیں، عوام اور بانیان انہیں خود ہی مسترد کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 657890
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش