0
Sunday 6 Aug 2017 08:03

افغانستان میں مضبوط مرکزی حکومت کا قیام ناگزیر ہے، حکمت یار

افغانستان میں مضبوط مرکزی حکومت کا قیام ناگزیر ہے، حکمت یار
اسلام ٹائمز۔ افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے ملک میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ ذہ ملک میں استحکام لانے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ گلبدین حکمت یار رواں سال اپریل میں 20 سالہ طویل جلاوطنی کے بعد افغانستان میں واپس آئے تھے جس کو سنگ میل کہا جاتا تھا لیکن افغان حکومت کے ساتھ انھوں نے متنازعہ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 70 سالہ حکمت یار نے میڈیا کو بتایا کہ افغانستان کو 'ایک مضبوط صدر کی رہنمائی میں ایک مضبوط مرکزی حکومت' کی اشد ضرورت ہے۔ طویل جلاوطنی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے بغیر ملک میں امن و استحکام لانا ممکن نہیں ہے'۔ سابق وزیراعظم افغانستان نے کہا کہ 'حزب اسلامی امن اور استحکام میں حکومت کےساتھ تعاون کرنے کے لیے غیرمشروط طور پر تیار ہے'۔ انھوں نے کہا کہ 'ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کو اختیارات دینے اور انتخابات میں شرکت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے'۔

 واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھانے کی اجازت دی تھی جس پر حکمت یار نے کہا کہ ٹرمپ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی غلطی کر رہے ہیں جبکہ افغانستان میں امریکا کے 8 ہزار 400 فوجی موجود ہیں جو گزشتہ 6 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کی موجودگی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'موجودہ جنگ فوجیوں کی تعداد بڑھانے سے نہیں جیتی جاسکتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری افغانستان میں ہمسائیوں اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت روکنے میں مدد کرے'۔

خیال رہے کہ گلبدین حکمت یار امریکا کی جانب سے طالبان کے خلاف جنگ کے بعد افغان حکومت سے معاہدے کرنے والے کئی متنازعہ شخصیات میں سے ایک ہیں جو 80 کی دہائی میں روس کے خلاف لڑنے میں پیش پیش تھے۔ افغان حکومت کے ساتھ حکمت یار کا امن معاہدہ گزشتہ سال ستمبر میں ہوا تھا اور وہ رواں سال اپریل میں افغانستان واپس آ گئے تھے جس کو افغان صدر اشرف غنی کی امن کی بحالی کے لیے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا تھا۔

واضح رہے کہ افغانستان کے سابق وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت تنظیم حزب اسلامی نے 1977ء سے 1992ء تک روس کے خلاف جنگ میں متحرک ترین کردار ادا کیا تھا جبکہ حزب اسلامی پر 1992ء سے 1996ء کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین پر حملوں میں ہلاکتوں کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ 2001ء میں افغانستان میں امریکا کی فوجی دخل اندازی کے بعد گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔ حزب اسلامی نے افغانستان میں آخری بڑا حملہ 2013ء میں کیا تھا جس میں 6 امریکیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 658869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش