0
Saturday 13 Jun 2009 10:39

ایک اور اعتدال پسند مذہبی رہنما کا قتل

ایک اور اعتدال پسند مذہبی رہنما کا قتل
لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا شمار ملک کے اعتدال پسند سوچ رکھنے والے مذہبی رہنماؤں میں ہوتا تھا اور انہوں نےگزشتہ دنوں ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اکیس مذہبی جماعتوں کا ایک طالبان مخالف اتحاد قائم کیا تھا۔ اسی سال مئی میں برطانوی اخبار "دی ٹائمز" کو انٹرویو میں انہوں نے طالبان کو اسلام کے نام پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں تباہ کرنے کی ہر کوشش کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "پاکستان کو بچائیں گے"۔ تاہم ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق مفتی سرفراز نعیمی طالبان کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کا موقف رہا ہے کہ یہ طالبان کا بھیس اپنائے کوئی اور لوگ ہیں۔ مرحوم لال مسجد کے مہتم غازی عبدالرشید کی مخالفت کرنے والے علماء میں بھی شامل رہے اور ساتھ ساتھ وہ امریکی پالیسیوں کے بھی ناقد تھے۔ ڈاکٹر سرفراز پاکستان میں اہلِ سنت والجماعت کے تقریباً چھ ہزار مدارس کی تنظیم کے گزشتہ دس برس سے ناظم اعلٰی تھے۔ وہ اپنے والد علامہ مفتی محمد نعیمی کے انتقال کے بعد جامعہ نعیمیہ کے مہتمم بن گئے تھے۔ اس مدرسے میں اس وقت چودہ سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اس کی پانچ شاخیں بھی ہیں۔ پچپن سالہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی ملک میں دوسرے مذہبی رہنما ہیں جنہیں بظاہر طالبان پر تنقید کے نتیجے میں ہلاک کیا گیا ہے۔ اس سے قبل صوبہ سرحد میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حسن جان کو بھی بظاہر خودکش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے پر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس سے قبل مذہبی رہنماؤں کی جانب سے طالبان کی مخالفت میں بولنے کا رواج نہیں تھا۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی موت کو مذہبی گروہوں کے درمیان واضح ہوتی خلیج کا اشارہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں جنہیں جمعہ کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ مرحوم نے سوگواران میں ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسے نعیمیہ میں ہی حاصل کی جہاں انہیں دھماکے میں ہلاک کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے معروف اسلامی درس گاہ جامعہ الازہر مصر سے بھی ایک کورس کر رکھا تھا۔  مفتی پاکستان مفتی منیب الرحمان مرحوم ڈاکٹر سرفراز کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ ان کے مطابق مرحوم کی قائدانہ صلاحیتیوں اور ان کی حق گوئی ان کے دشمنوں کو قبول نہیں تھیں لہذا انہیں قتل کیا گیا۔مفتی منیب کے مطابق "مرحوم سادہ مزاج، سادہ لباس اور سادہ وضع قطع کے انسان تھے۔ وہ موٹر سائیکل پر بھی گھومتے پھرتے تھے اور پروٹو کول میں یقین نہیں رکھتے تھے"۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اس ہلاکت کو ایک بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ ہمسایہ ملک میں موجود امریکی افواج کی موجودگی کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی حفاظت نہیں کرسکتی تو مذہبی رہنماؤں اور عام شہریوں کے کیا حفاظت کرے گی۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی سنی اتحاد کونسل، معتدل سنی بریلوی اسلام کی نمائندگی کرتی ہے جو صوفیوں، موسیقی اور مزاروں پر عقیدت مندوں کے جانے کی حامی ہے۔ یہ اتحاد ملک کے سیکولر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت کی سوات میں جاری کارروائی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس اتحاد نے طالبان مخالف احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی تھیں۔

خبر کا کوڈ : 6627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش