0
Thursday 31 Aug 2017 11:42

ٹی ٹی پی کے مفتی شاکر کے اعترافی بیان میں حیران کن انکشافات

ٹی ٹی پی کے مفتی شاکر کے اعترافی بیان میں حیران کن انکشافات
اسلام ٹائمز۔ پولیس اہلکاروں کے قتل اور 2014ء میں سی آئی ڈی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کرنے کے الزامات پر گرفتار ہونے والا محمد شاکراللہ عرف مفتی شاکر ضمانت پر رہا ہونے کے بعد افغانستان فرار ہوگیا جہاں وہ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ کو چلانے میں مصروف ہے۔ رپورٹ کے مطابق مفتی شاکر کی موجودہ سرگرمیوں سے متعلق یہ معلومات بدھ (30 اگست) کے روز سامنے آئی۔ واضح رہے کہ مارچ 2014ء میں کراچی سینٹرل جیل میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی پوچھ گچھ کے دوران مفتی شاکر نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 10 پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو قتل کرچکا ہے۔ مفتی شاکر کی جے آئی ٹی رپورٹ کے جائزے میں ڈان کو یہ معلومات حاصل ہوئی کہ وہ خود کو ایس پی چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کرنے کے لیے بھی پیش کرچکا تھا تاہم اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مفتی شاکر نے ضمانت حاصل کرنے کے لیے جعلی دستاویزات جمع کروائیں۔

رپورٹ کے مطابق شاکر سائٹ کے علاقے میں 1981ء میں پیدا ہوا جہاں وہ اپنے 6 بھائیوں اور 9 بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا، کے ایم سی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاکر نے کراچی کے تین مشہور مدرسوں سے تعلیم حاصل کی جس میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ مذہبی عالم کا کورس بھی شامل تھا۔ 2009ء میں شاکر نے سائٹ میں ایک مدرسہ قائم کیا اور وہاں کا پرنسپل بن گیا تاہم یہ مدرسہ حال ہی میں سیل کیا جاچکا ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ شاکر نے 1996ء میں ایک مشہور مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی جہادی تنظیم حرکات المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی تھی، مگر 2000ء میں جب اس گروپ اور جیشِ محمد میں اختلافات شروع ہوئے تو شاکر نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلی۔ تاہم 2012ء میں جماعت کے کراچی کے سربراہ کی ترغیب پر مفتی شاکر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (خیبر ایجنسی) میں شامل ہوگیا۔ شاکر نے 1999ء میں مانسہرہ سے عسکریت پسندی کی تربیت حاصل کی اور 2012ء کے دوران خیبر ایجنسی میں بم بنانا سیکھا جس کے بعد تجرباتی بنیاد پر تین بم دھماکے بھی کیے۔

شاکر نے جے آئی ٹی ارکان کے سامنے اعتراف کیا کہ جولائی 2012ء میں اسے ٹی ٹی پی (خیبر ایجنسی) سے 10 ہزار روپے جرمانے کی ’چِٹ‘ موصول ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جرمانہ اس لیے عائد کیا جا رہا ہے کہ شاکر کے دو بھائیوں کے سی آئی ڈی اہلکاروں سے رابطے ہیں۔ جرمانے کے ساتھ ساتھ شاکر کو ان بھائیوں سے دور رہنے کی ہدایت بھی دی گئی۔ اس نے جے آئی ٹی کو مزید بتایا کہ بعد ازاں وہ اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ خیبر ایجنسی گیا جہاں ٹی ٹی پی سربراہ سے ملاقات کے بعد اپنے خلاف لگائے گئے الزام کو مسترد کیا۔ خیبر ایجنسی میں 40 روز قیام کے بعد وہ کراچی واپس آگیا اور کام جاری رکھا، اس دوران اس نے 10 افراد پر مشتمل ایک سیل بنایا جن میں سے 4 کو بعد ازاں اس نے قتل کردیا۔ شاکر نے یہ ’اعتراف‘ بھی کیا تھا 2013ء سے لے کر 2014ء کے آغاز تک گرفتار ہونے سے قبل ساتھیوں کے ساتھ ساتھ 10 پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو بھی قتل کرچکا تھا، اس عرصے میں اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 20-25 حملے کیے جن میں پولیس وین پر کیے جانے والے دستی بم حملے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں کے متاثرین کی شناخت آرمی فوجی عمران، سی آئی ڈی کے ہیڈ محرر، پولیس کانٹیبلز محمد انور، محمد شیر، پرویز اختر، شہزاد رضا، رجب علی، راشد، عامر، شبیر، وقار اور فضل امین کے ناموں سے کی گئی۔ قانون نافذ کرنے والے ان تمام اہلکاروں کو 2013ء کے دوران سائٹ ایریا میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ اسی سال شاکر نے اپنے ساتھیوں فضل الرحمٰن اورعبداللہ عرف مختار کے ہمراہ ایک فیکٹری کے باہر موجود پولیس وین پر حملہ کیا۔

شاکر نے مدرسے کے طالب علم 25 سالہ نعیم اللہ کو دہشت گردی کی جانب مائل کیا جس نے ایس پی اسلم پر 4 جنوری 2014ء کو خودکش حملہ کیا۔ یہ مبینہ خودکش بمبار ایک مذہبی اسکالر کا بیٹا تھا جو پیرآباد کے علاقے میں مدرسہ چلاتے تھے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شاکر نے کالعدم لشکر جھنگوی کے ایک دہشت گرد سے رابطہ قائم کیا جس نے دسمبر 2013ء میں ایس پی اسلم پر حملے کے لیے خودکش بمبار فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ابتدائی طور پر شاکر نے خود ہی چوہدری اسلم پر حملہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تاہم لشکر جھنگوی کے عسکریت پسند نے اسے کہا کہ وہ ایک ’مذہبی اسکالر‘ ہے جس کی تبلیغ کی ’مزید ضرورت‘ ہے۔ لہذا اس حملے کے لیے دوسرے شخص کو تیار کیا گیا۔ شاکر نے نعیم اللہ کو ذہی طور پر تیار کیا اور 7 سے 8 روز تک اسے مسلسل تحریک دیتا رہا۔ اس دوران نعیم اللہ نے شاکر کو بتایا کہ وہ ٹی ٹی پی (سوات) سے تعلق رکھتا ہے اور اپنے گروپ کے سربراہ کی اجازت کے بغیر کوئی دہشت گرد سرگرمی سرانجام نہیں دے سکتا۔ تاہم جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مفتی شاکر نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایس پی اسلم ایک ’اہم ٹارگٹ‘ ہے اور اس حملے کے لیے اسے اپنے امیر کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 665722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش