0
Saturday 2 Sep 2017 15:32

مقبوضہ کشمیر، لواحقین کو 24 برسوں بعد بھی عید پر اپنوں کا انتظار

مقبوضہ کشمیر، لواحقین کو 24 برسوں بعد بھی عید پر اپنوں کا انتظار
اسلام ٹائمز۔ سرینگر کے راجباغ علاقے سے تعلق رکھنے والی صبیہ آزاد بانو چوبیس برسوں سے عید کی حقیقی خوشیوں میں شامل ہونے کا انتظار کر رہی ہے، مگر انتظار ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ صبیہ آزاد بانو آج بھی وہ دن بھول نہیں رہی ہے، جب صرف چھے ماہ کی دلہن تھی اور 1993ء میں اس کے شوہر ہمایوں آزاد کو مہجور نگر پل پر قابض فورسز نے گرفتار کیا تھا اور آج تک اس کا کوئی بھی آتہ پتہ نہیں چلا، تاہم صبیہ آزاد بانو نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور آج بھی اس کو اس بات کا قوی یقین ہے کہ اس کا شوہر ضرور واپس لاٹ آئے گا۔ سرینگر میں گمشدہ ہوئے افراد کی بازیابی کیلئے دھرنے پر دیگر لواحقین کے ہمرہ بیٹھی صبیہ آزاد بانو نے میڈیا کو بتایا ”1993ء میں میرے شوہر کو قابض فورسز کے اہلکاروں نے مہجور نگر پل پر گاڑی سے نیچے اتار اور انہیں حراست میں لیا“۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی لمحات میں ہی ان کے شوہر کو سخت ترین تارچر کیا گیا۔

صبیہ آزاد بانو نے اپنی روداد جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے پولیس تھانے میں رپورٹ بھی درج کی اور کیمپ پر بھی گئے، جہاں پر وہ مقید تھے، تاہم اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ صبیہ آزاد نے کہا ”پاپا 2 انٹرگیشن سینٹر کی فہرست میں ہمایوں آزاد کا نام بھی درج تھا، مگر کچھ دنوں کے بعد جب ہم وہاں گئے تو اس کا نام ہٹا لیا گیا تھا“۔ صبیہ آزاد بانو نے کہا کہ پہلے پہل قابض فورسز افسران نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمایوں آزاد کو پوچھ تاچھ کے بعد رہا کیا جائے گا، مگر انہیں دوران حراست ہی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ صبیہ نے کہا ”میرے شوہر کی گرفتاری کے بعد جب فورسز نے اہل خانہ سے انکی ملاقات میں آنا کانا کی، تو انکے ساتھ دیگر ایک نظربند کی ملاقات کو گئے، جنہوں نے بتایا کہ ہمایوں آزاد انکے ہمراہ ہی قید تھے اور انکی ٹانگوں میں چوٹیں بھی آئی تھی، مگر وہ بعد میں ٹھیک ہوگئی اور وہ چلنے پھیرنے کے قابل بھی ہوگئے تھے، تاہم چند دنوں سے وہ نظر نہیں آرہے ہیں اور پُراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے“۔

اس دوران ہمایوں آزاد کی والدہ بھی اپنے بیٹے کی دوران حراست اچانک لاپتہ ہونے کے غم میں نڈھال ہوگئی اور آخرکار بیٹے کا انتظار کرتے کرتے وہ پیوندخاک ہوگئی۔ صبیہ آزاد بانو کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ایک لمحہ کیلئے بھی فراموش نہ کرسکیں اور کچھ ماہ کے بعد جب اس کا بیٹا پیدا ہوا تو اس کی پرورش میں اپنا سب کچھ داﺅ پر لگایا۔ صبیہ آزاد نے نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور بیٹے کی پرورش اور بود و باش کے علاوہ اس کو تعلیم کے نور سے بھی آراستہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا ہوٹل منیجمنٹ کی ڈگری کررہا ہے اور اس کو میں نے کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں، تاہم شفقت پدری رشتہ ہی ایسا ہے کہ ایک والدہ اپنے بچے کیلئے کچھ بھی کریں پھر اس کو والد کے سائے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

صبیہ کا کہنا ہے کہ جس طرح ہم اپنے اپنوں کی جدائی میں تڑپ رہے ہیں، اسی طرح وہ بھی اپنے اہل و عیال سے دور رہ کر تڑپ رہیں ہونگے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ایسا قانون نہیں ہے، جس میں جبری طور پر لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہو، مگر دنیا کے اس خطے میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نئی نوئلی دلہن کو اپنے شوہر سے الگ کیا جاتا ہے اور بچے کے پیدا ہونے سے قبل ہی اس کو والد کے سائے سے محروم کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ”ہماری اصل عید اسی روز ہوگی جب ہمارے بچھڑے ہم سے مل جائے گئے، اس دن جشن بھی منائے گئے اور سجدہ شکر بھی ادا کریں گے“۔
خبر کا کوڈ : 666006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش