0
Monday 4 Sep 2017 20:10

بیجنگ، بریکس کی جانب سے جیش محمد اور لشکر طیبہ سمیت پاکستان میں پائے جانے والی تنظیموں کی مذمت

بیجنگ، بریکس کی جانب سے جیش محمد اور لشکر طیبہ سمیت پاکستان میں پائے جانے والی تنظیموں کی مذمت
اسلام ٹائمز۔ دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم بریکس (انڈیا، چین، برازیل، روس، جنوبی افریقہ) نے پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس کےاعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دہشتگردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس اعلان کو انڈیا کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پانچوں ممالک کے سربراہان نے مشترکہ اعلامیے میں ایسے تنظیموں کی سخت مذمت کی ہے اور دھشتگردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا ایادہ کیا گیا۔ 43 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔ بریکس ممالک نے خطے میں بدامنی اور طالبان، دولتِ اسلامیہ، القاعدہ اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، ٹی ٹی پی اور حزب التحریر کی وجہ سے ہونے والے فساد کی مذمت کی گئی۔ یہ تنظیم کا نواں اعلیٰ سطحی اجلاس تھا۔ تنظیم نے ہر قسم کی دہشتگردی کی مخالفت کا بھی اعادہ کیا۔ تنظیم نے اس بات کو دہرایا ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا اولین طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے اور بین الاقوامی معاونت کو خود مختاری اور عدم مداخلت کی بنیادوں پر فروغ دینا چاہیے۔

یاد رہے کہ اس اجلاس سے پہلے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’ہمیں پتا ہے کہ انڈیا کے پاکستان کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے خدشات ہیں ہمیں ہمارے خیال میں بریکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ بریکس اجلاسوں میں چین نے پاکستان میں پائے جانے گروہوں کو اعلامیے میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ حالانکہ گذشتہ اجلاس اوڑی حملے کے ایک ہفتے بعد ہی ہورہا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چین اقوام متحدہ کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشتگرد قرار دینے کی کوشش پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے، کیونکہ کل ہی چینی دفتر خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا دفاع ہم کرینگے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس میں برکس ممالک کے سربراہان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، روسی صدر ولادی میر پیوٹن، برازیلین صدر مائیکل ٹیمر، اور جنوبی ایشیاء کے صدر جیکب زوما شریک تھے۔

واضح رہے کہ اجلاس کا انعقاد بیجنگ کی جانب سے عالمی لیڈر شپ کی تشکیل کے دعوے پر عملدرآمد کے لیے کیا گیا ہے تاہم یہ اجلاس ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے چھٹے جوہری تجربے نے سب کی توجہ حاصل کر رکھی ہے۔ ایک روز قبل کیا جانے والا شمالی کوریا کا جوہری تجربہ اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک چین کے لیے شرمندگی کا سبب بنا تھا جس کی چینی وزارت خارجہ نے مذمت بھی کی۔ خیال رہے کہ رواں سال مئی کے دوران بھی شمالی کوریا نے میزائل تجربہ کیا تھا، اس وقت بھی یہ تجربہ اس دوران کیا گیا تھا جب چینی صدرعالمی تجارت اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے فروغ کے لیے ایک بڑے بین الاقوابی اجلاس کی میزبانی کررہے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے جاری اشتعال انگیزی کے اس سلسلے کا مقصد چین پر دباؤ بڑھانا ہوسکتا ہے تاکہ واشنگٹن یونگ یانگ کے ساتھ خود بات چیت پر مجبور ہوجائے۔

واضح رہے کہ شمالی کوریا کے جوہری اور ہائڈروجن بم کے دعوے کے بعد شمالی کوریا کے خلاف ردعمل پر یہ ممالک تقسیم ہوسکتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو پہلے بھی شمالی کوریا کے خلاف سخت ردعمل کا عندیہ دے چکے تھے انہوں نے حالیہ تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی خطرناک قرار دیا اور جوابی کارروائی کے امکان کا آپشن کھلا رکھا۔ دوسری جانب روس اور چین سفارتکاری کے ذریعے اس کی حل کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔ کریملن کے مطابق روسی صدر پیوٹن نےجاپانی وزیراعظم شنزو ایبے سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کے تجربے کی مذمت کی۔ تاہم ولادی میر پیوٹن نے اس بات کو دہرایا کہ مسئلہ ’سیاسی اور سفارتی‘ طریقے سے حل کیا جانا چاہیئے۔  چینی صدر شی جن پنگ نے برکس اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنے خطاب میں اس حوالے سے کسی قسم کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا۔ تاحال یہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے کہ جوہری تجربے کے معاملے پر برکس ممالک کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے یا نہیں تاہم منگل (5 ستمبر) کو چینی اور روسی صدر پریس کانفرنسز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے ہیں۔

دوسری جانب ہمالیہ کے متنازع خطے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے آمنے سامنے کے نتیجے میں برکس ممالک کےدرمیان بھی کشمکش کی صورتحال ہے۔ گو کہ گذشتہ ہفتے بھارتi فوجی ڈوکلام کے متنازع علاقے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں تاہم سب کی نظریں شیامن میں نریندر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان کسی قسم کی بات چیت پر ٹکی ہوئی ہیں۔ خیال رہے کہ دس سال قبل سامنے آنے والے برکس گروپ کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے لیے آواز بلند کرنا تھا تاہم پالیسی تجزیہ کار مسلسل اس کی اہمیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس گروپ کے رکن ممالک اپنے اپنے معاشی چیلنجز میں مصروف ہیں۔ برکس ممالک کے درمیان تجارت بھی بڑی حد تک چین کے حق میں ہے جس پر رکن ممالک تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 666424
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش