0
Friday 8 Sep 2017 12:45
مغربی میڈیا کے زہریلے پروپیگندے کو جواب

جو لوگ ہمارے اور رہبر انقلاب کے روابط کو خراب دیکھنا چاہتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں، سید عمار حکیم

بی بی سی کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے
جو لوگ ہمارے اور رہبر انقلاب کے روابط کو خراب دیکھنا چاہتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں، سید عمار حکیم
اسلام ٹائمز۔ سید عمار حکیم حکمت ملی عراق کے چیئرمین اور معروف دینی سکالر نے ایران بالعربی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ جو لوگ ہمارے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے روابط کو خراب دیکھنا چاہتے ہیں وہ احمقوں کی جنگ میں بستے ہیں۔ ایران ہمارے لئے تزویراتی گہرائی کا حامل ہے۔ ہم رہبر معظم انقلاب اسلامی کی نصیحتوں اور رہنمائی سے بے نیاز نہیں ہیں۔ انہوں نے رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی ہدایات کو عراق کی تعمیر و ترقی کیلئے مفید قرار دیا اور کہا کہ امام خامنہ ای گذشتہ چالیس سالوں میں عراقی لیڈرز کے ساتھ مضبوط رابطہ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ وہ عراق کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔

سید عمار الحکیم نے ایران اور سعودی عرب کے روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان جتنے بھی اختلافات ہوں پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان موجود روابط کا تقاضا اور دوجانبہ تعاون کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ البتہ یہ کام قانونی مضبوط بنیادوں کی ایجاد اور دوجانبہ تعاون کی صورت میں امکان پذیر ہے۔ حکمت ملی عراق کے چیئرمین نے مزید کہا کہ عراق وہ تنہا جغرافیائی نقطہ ہے جو ایران کو سعودی عرب سے ملاتا ہے۔ عراق ان دونوں ممالک کے روابط کو نزدیک کر سکتا ہے۔ عراق کے مشہور سیاستدان اور حاکم پارٹی کے متحد رہنما نے کہا کہ ایران، سعودی عرب اور ترکی مشرق وسطی کے تین اہم ممالک ہیں۔ ہمارا ملک ان تنیوں ممالک کو آپس میں ملاتا ہے۔ عراق ہی وہ ملک ہے جو ان تنیوں ممالک کے روابط اور آرا کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔

یاد رہے یہ انٹرویو ایسی صورتحال میں سامنے آیا ہے جب مغربی پروپیگنڈا مشین خصوصا بی بی سی اپنی اخبار اور آرٹیکلز میں عراق ایران روابط کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سٹوریز عراقی لیجنڈ لیڈر سید مقتدی صدر کے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں سفر کے بعد شروع کی گئی ہیں۔ حال ہی میں چند ایک ایرانی علما کے عراق سفر کے بہانے سے بھی بعض مغربی ذرائع نے منفی پروپیگنڈے کی کوشش کی ہے۔ مغربی طاقتوں کو ایران عراق روابط میں بہتری ایک آنکھ نہیں بھاتی خصوصا جب دوجانبہ روابط داعش سے مقابلے کیلئے بننے والے لشکر حشد الشعبی یعنی قومی فورس کے بننے کے بعد اپنی اعلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 667346
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش