0
Saturday 28 Oct 2017 03:07
بریکنگ نیوز

قطر کے سابقہ وزیراعظم کے نئے اعترافات

عرب ممالک کی دہشت گردوں کو مدد
قطر کے سابقہ وزیراعظم کے نئے اعترافات
اسلام ٹائمز۔ قطر کے سابقہ وزیر اعظم حمد بن جاسم آل ثانی نے اپنے نئے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہم امریکہ، ترکی اور سعودی عرب کی مدد سے شام کے دہشت گرد گروہوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ قطری سابق وزیر اعظم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ قطر، ترکی کے راستے شام کے مسلح گروپس کی سعودی عرب اور امریکہ کی زیر نگرانی مدد کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض نے سوریہ کی فائل دوحہ کے حوالے کی ہوئی تھی اور قطر کے پاس اس بارے میں مکمل اسناد موجود ہیں۔ انہوں نے شام میں النصرہ فرنٹ کی ترکی کے راستے مدد کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے سعودی عرب کی بشار الاسد کے بارے میں پالیسی چینج پر تنقید کی اور کہا کہ جب شام کا مسئلہ شروع ہو چکا تھا تو میں نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سابقہ روایات کے مطابق ملک عبداللہ سے ملاقات کی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ہم تمہاری حمایت کرتے ہیں، آپ اس مسئلہ پر کام جاری رکھیں۔ ہم آپ سے رابطے میں رہیں گے لیکن آپ اس کو ہینڈل کریں۔ ہم نے اس فائل کو لے لیا۔ میں تمام باتیں بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن اس بارے میں تمام اسناد موجود ہیں۔ اس وقت کے قطری وزیراعظم نے شام میں مداخلت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بھیجی جانے والی مکمل ایڈ ترکی جاتی تھی اور امریکیوں کو اس بات کی اطلاع دی جاتی تھی۔ اس ایڈ کی تقسیم مکمل طور پر امریکی اور ترکی فوجیوں کے ذمہ تھی، اس کام میں ہمارے اور بھائی سعودی عرب کے فوجی افسر بھی حاضر ہوتے تھے۔ شیخ حمد آل ثانی نے کہا کہ ہمارا ہدف شام کو آزاد کروانا تھا۔


واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی قطر کے سابق وزیر اعظم حمد بن جاسم آل ثانی نے کینیڈین سیٹلائیٹ چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سعودی عرب کے امریکی اسرائیلی اقدامات کے بارے میں سنسنسی خیز انکشافات کئے تھے۔ قطری وزیراعظم نے سعودی عرب کی قطر پر پابندیوں کے بارے میں مفصل گفتگو کی تھی۔ حمد بن جاسم آل ثانی کا کہنا تھا کہ قطر خلیجی ممالک کی ایران کے خلاف سازشوں کا حصہ تھا۔ ہمیں اس بات کی امید نہیں تھی کہ ہمارے سعودی بھائی ہمارے ساتھ اس قسم کی غیر قابل قبول حرکت انجام دیں گے۔ لیکن گویا کہ سعودی لیڈرشپ سیاسی مسائل میں غیر تجربہ کار ہے۔ یہ ابھی سیاسی مسائل میں بونے ہیں۔ قطری سابق وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہاں ہماری بعض پیشگوئیاں غلط تھیں، ہمارے خطے کے بارے میں بعض سیاسی اعداد و ارقام غلط تھے لیکن یہ سب کام ہم نے اپنے خلیجی بھائیوں کو خوش کرنے کیلئے انجام دیئے۔ سعودی عرب امریکی اسرائیلی احکامات کی ایران کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے حمایت کرتا ہے. وہ اس کام کیلئے بہت پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بھائی ملک یمن کے خلاف غیر انسانی جنگ میں شریک تھے لیکن جب اپنے اس کام سے شرمندہ ہوئے اور جنگ کو روکنے کا مطالبہ کیا تو ہم بھی دشمن میں تبدیل ہو گئے۔ یہ جنگ سوائے سیاسی اور میدانی نقصان کے کسی کیلئے فائدہ مند نہیں ہے۔


قطری سابق وزیراعظم نے کہا کہ قطر دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا تھا اور نہیں کرے گا و گذشتہ کی طرح دہشت گردی سے مقابلہ کرتا رہے گا۔ سعودی عرب وہابی تفکر کا مرکز ہے۔ ان کے پاس فتنہ گر شیوخ (مولوی) موجود ہیں۔ اکثر دہشت گرد یا سعودی ہیں یا انہوں نے سعودی مساجد میں پرورش پائی ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دھمکی آمیز بیان کے بارے میں کہا کہ ہم سیاست کے بونوں اور احمقوں کو جواب نہیں دیتے۔ یمن جنگ میں جتنا بھی نقصان ہوا ہے اور جو کچھ مصیبتیں فوجی اتحاد خصوصا سعودی فوجیوں پر آرہی ہیں وہ اسی بے وقوف کی خام خیالی کی وجہ سے ہے۔ ہم آسان نوالہ نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے کہ قطر ایک چھوٹا ملک ہے لیکن ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے پاس قوت ہے اور دنیا میں ایک مقام ہے۔ قطر کے سابقہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے ۱۵ اپریل کو چھپنے والے فنانشئل ٹائمز کے ساتھ انڑویو میں کہا تھا کہ سعودی عرب شام میں پیش آنے والے بحران کا ذمہ دار ہے۔ جو کچھ شام میں پیش آیا ہے وہ ایک بین الاقوامی گیم تھی (عوامی انقلاب نہیں تھا)۔ قطری سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ امریکہ تھا کہ جس نے سعودی عرب اور قطر کو گرین سگنل دیا کہ شام کے داخلی معاملات میں مداخلت کی جائے۔

اس بارے میں طراد بن سعید العمری سعودی عرب کا معروف رائٹر لکھتا ہے کہ شیخ حمد کی باتیں بہت خطرناک ہیں۔ ایسی باتیں بہت سے نئے سوال جنم دیتی ہیں۔ یہ باتیں شام کی پوری کہانی کو پلٹ دیں گی۔ ایسی کہانی کہ جس کو خلیجی ممالک نے شام اور بشار الاسد کے بارے میں بیان کیا تھا۔ شامی حکومت کی عوام کے ساتھ زیادتی کے قصے، خطے کا استحکام، دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت، جنیوا مذاکرات اور ان سب سے زیادہ اہم یہ کہ ایران کا خطہ کے مسائل میں کردار۔ لہذا سب سے پہلے یہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہے کہ جن کو قطری وزیراعظم کے بیانات کے بارے میں توضیح دینا ضروری ہے۔ یہ ویب سایٹ انحاء کا سعودی کالم نگار مزید کہتا ہے کہ جب فنانشیل ٹائمز کے صحافی رلا خلف نے قطری سابقہ وزیراعظم سے پوچھا کہ جو کچھ سوریہ میں پیش آیا ہے اس جرم میں سے ایک حصہ کی ذمہ داری کو قبول کریں گے یا نہیں تو شیخ حمد بن جاسم نے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ جو آج تک میں نے کسی کو نہیں بتائی۔ جب ہم نے ۲۰۱۲ میں شام کے مسئلہ کو شروع کیا تو ہمیں یقین تھا کہ شام کے تمام مسائل کی کمانڈ جلد ہی قطر کے ہاتھ میں آجائے گی، چونکہ اس وقت سعودی عرب کو مداخلت کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ لیکن بعد میں شام کے بارے میں ان کی سیاست تبدیل ہو گئی اور ہمیں نہیں بتایا گیا کہ سعودی عرب یہ چاہتا کہ ہم پچھلی نشست پر بیٹھے رہیں پس یہ مسئلہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان ایک ریس میں تبدیل ہو گیا۔ طراد العمری لکھتا ہے کہ یہ صاف اور سنسنی خیز اعتراف اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیوں اس نے اس وقت یہ بات کہی ہے؟
خبر کا کوڈ : 679668
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش