0
Monday 13 Nov 2017 10:49

ایم ایم اے اور پاکستانی سیاسی جماعتیں

ایم ایم اے اور پاکستانی سیاسی جماعتیں
اسلام ٹائمز۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے 6 مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے بعد دوبارہ بحال ہونے والی جماعت متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) پر مختلف رائے دی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مذہبی تنظیموں کے اتحاد کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا کہ 'یہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ کالعدم جماعتوں کی تنظیم ہے'۔ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'خاموشی سے طالبان کو ابھارنے کے لیے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے'۔ فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ایم ایم اے 2002ء کے عام انتخابات میں ابھر کر سامنے آئی اور انہوں نے جنرل (ر) پرویر مشرف کو ایک ایسا نقطہ دیا جس کو انہوں نے مغرب پر حکمرانی کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یا تو پاکستان میں وہ ہیں یا مذہبی جماعتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور ڈیفنس آف پاکستان کونسل (ڈی پی سی) کا عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے طالبان کو منظر عام پر لانے کے منصوبے کو بڑھاوا دے گا۔ اس منصوبے کے پیچھے چھپے ہاتھوں کی نشاندہی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'اس منصوبے کے پیچھے کون ہے میں یہ تو نہیں جانتا لیکن یہ منصوبہ آگے بڑھ رہا ہے'۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات ان کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں جن میں جماعت الدعوۃ کی نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کا قانون کے خلاف ہونے کے باوجود قیام اور مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں 40 سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تنظیم ڈی پی سی کا بھی سیاست میں آنے کا اعلان شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان نے جس آرمی پبلک اسکول پر حملے کا خود اعتراف کیا ہے انہیں سزا دینے کے بجائے ٹی وی پر لایا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کے دل میں ہمدردی ہو جیسے وہ بیرونی اجنٹس کے ہاتھوں کسی گمراہ نوجوان سے زیادہ نہیں تھا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے عام انتخابات سے قبل اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعتوں کو ایسے اتحاد سے کوئی خطرہ نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری اور وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ مذہبی جماعتیں خود کو بچانے کے لیے محنت کر رہی ہیں کیوں کہ پچھلے دو انتخابات میں وہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہونے والے این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں لاہور نے بتا دیا کہ مذہبی جماعتوں میں دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک کم کرنے کی بہت کم صلاحیت رہ گئی ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے ترقی کے منصوبوں سے ملک میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی جماعتوں کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے امکانات بہت کم ہیں اور بظاہر یہ ان کی اپنی محنت لگتی ہے۔

تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس اس اتحاد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں جبکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صورت حال بدل رہی ہے اب دیکھنا ہے کہ وہ اس اتحاد کو قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔ شفقت محمود کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں اس اتحاد سے کوئی خطرات نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے دو انتخابات میں ناکامی کے بعد یہ سیاسی و مذہبی جماعتیں مل کر عام انتخابات میں بہتر طریقے سے لڑنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

قبل ازیں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی بحالی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس موقع پر سراج الحق کے ساتھ جمعیت علماء اسلام (ف) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز ہاشمی اور دیگر جماعتوں کے سربراہان بھی موجود تھے۔ ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھا کہ دسمبر میں نئے اتحاد کا سربراہی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور، 2002ء میں بنائی گئی متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں 2002ء سے 2007ء تک حکومت کی تھی جس کے بعد جماعت کے اندر اختلافات پیدا ہونے سے اس کی مقبولیت ختم ہو گئی تھی۔ بعد ازاں 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عوام کی واضح حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس سے قبل پی پی پی اور (ن) لیگ کے رہنماؤں جمہوریت کی بحالی کے وقت ایم ایم اے کو 'ملا ملٹری الائینس' کا نام دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ جماعت کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔
خبر کا کوڈ : 683024
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش