0
Thursday 28 Apr 2011 11:27

امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ پر پاکستانی تحفظات جائز ہیں، کیمرون منٹر

امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ پر پاکستانی تحفظات جائز ہیں، کیمرون منٹر
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہا ہے کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان اختلافات بات چیت کے ذریعے طے ہو جائیں گے، جنرل پاشا اور سی آئی اے کے سربراہ کی ملاقات ایک خوش آئند پیش رفت ہے، دونوں کی مزید ملاقاتیں ہوں گی۔ گذشتہ روز اپنی اقامت گاہ پر نوائے وقت کو ایک طویل انٹرویو میں کیمرون منٹر نے کہا کہ لاہور میں ہونے والے ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو متاثر کیا ہے لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے۔ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ پاکستان کی سڑکوں پر کئی ریمنڈ ڈیوس دندناتے پھرتے ہیں۔ نہ ہی یہ بات درست ہے کہ امریکہ زیارتوں پر حملے کرا رہا ہے۔ 
امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے افغانستان میں بھارت سمیت دوسرے ملکوں کے اثر و رسوخ کے بارے میں تحفظات بالکل جائز ہیں اور ان کے ازالے کے لئے کور گروپ کا اجلاس ہونا چاہئے۔ امریکی سفیر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات صرف آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے تعلقات تک محدود نہیں، انٹیلی جنس اور فوجی تعلقات دونوں ممالک کے وسیع تر تعلقات کا ایک جزو ہیں۔ امریکی سفیر نے کہا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صرف ایک مد میں امریکی امداد کا حساب لگا رہے ہیں، صرف 2010ء میں امریکہ نے پاکستان کو ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی امداد دی، امریکہ پاک فوج کی قربانیوں کی قدر کرتا ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی پوری رقم فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب سے اوباما انتظامیہ آئی ہے اس نے پاکستان کی جمہوری حکومت کے استحکام کے لئے کئی اقدامات کئے، پاکستان کی سویلین حکومت کی معاشی امداد کے لئے کیری لوگر بل منظور کیا گیا، جس کے تحت پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر کی اقتصادی امداد ملے گی۔ پاکستان کی فوج کے لئے جو دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، امداد دی جا رہی ہے۔ امریکہ سے بڑی توقعات ہیں اور توقعات رکھنا اچھی بات ہے۔ 
امریکی سفیر نے کہا کہ لاہور کا واقعہ بہت افسوسناک ہے، اس میں جو زندگیاں ضائع ہوئیں اس پر ہمیں بہت دکھ ہے۔ افغانستان میں جو چیلنج ہیں وہ پاکستان اور امریکہ کو مل کر حل کرنا ہوں گے۔ کور گروپ میں پاکستان افغانستان اور امریکہ شامل ہیں، ملکر سوچنا چاہئے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے افغانستان کے ہمسایوں کا کیا کردار ہو گا۔ ترکی، ایران، چین، افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کیا کردار ادا کرینگے، ان معاملات پر غور کرنا چاہئے۔ خلیج اور سعودی عرب کا بھی ایک کردار ہے۔ ہم ان لوگوں سے بات چیت کیلئے تیار ہیں، جو افغانستان کے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاو آتا رہا ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مصر اور تیونس میں جو ہو رہا ہے وہ پاکستان میں نہیں ہو رہا، میں ان کو بتاتا ہوں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جہاں جمہوری ادارے موجود ہیں۔ پاکستان کا پریس بہت توانا اور آزاد ہے۔ اس لئے مصر اور تیونس ایسے حالات پاکستان میں نہیں ہو سکتے۔ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 68399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش