0
Tuesday 26 Dec 2017 17:13
اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد جائے وقوع سے ایک خظ ملا تھا، حکومت کو اسے پبلش کرنا چاہیے

بینظیر بھٹو کا ایک قاتل اکرام اللہ اب بھی زندہ اور افغانستان میں موجود ہے، رحمان ملک

حملے کے وقت گاڑی میں پانچ لوگ موجود تھے، صرف سوالات مجھ سے کیوں پوچھے جا رہے ہیں
بینظیر بھٹو کا ایک قاتل اکرام اللہ اب بھی زندہ اور افغانستان میں موجود ہے، رحمان ملک
اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر داخلہ اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء رحمان ملک نے انکشاف کیا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو پرخودکش حملے کے لئے دو دہشتگرد آئے تھے، جن میں سے ایک اکرام اللہ نامی خودکش حملہ آور آج بھی زندہ ہے۔ سکھر ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکرام اللہ نے حملے کے بعد واپس جا کر بیت اللہ محسود کو رپورٹ دی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر گولی چلائی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اکرام اللہ اس وقت افغانستان کے علاقے قندہار میں موجود ہیں اور مطالبہ کیا کہ افغان صدر اسے گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کریں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو دہشت گردی کے خلاف باتیں کرتے ہیں، بتائیں کہ بینظیر حملے کے سہولت کار عبید الرحمٰن کو سی آئی اے نے ڈرون حملہ کرکے کیوں مارا۔ سابق وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ پرویز مشرف اگر سچے ہیں تو وہ پاکستان آکر اپنے کیسز کا سامنا کریں، ہم بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا پیچھا کریں گے اور انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو سکیورٹی نہیں دی، حالانکہ حملے کے ایک روز قبل ان کے ڈی جی آئی ایس آئی نے آگاہ کیا تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے، جب ان کے پاس اطلاع تھی تو پھر ان کو سکیورٹی کیوں نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو کے تمام قاتلوں کی نشاندہی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد جائے وقوع سے ایک خظ ملا تھا، حکومت کو اسے پبلش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس خط میں اسامہ بن لادن کو ٹی ٹی پی پاکستان کی جانب سے بینظیر کی شہادت پر مبارکباد دی گئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت گاڑی میں پانچ لوگ موجود تھے صرف سوالات مجھ سے کیوں پوچھے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نواز شریف کی زندگی ایک جیسی ہوگئی ہے، ایک پاناما میں پھنسا ہوا ہے تو دوسرا ایشیا میں پھنسا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007ء کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خودکش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔ رواں برس 31 اگست کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے مطابق 5 گرفتار ملزمان کو بری کر دیا گیا جبکہ سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا اور مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔ بینظیر قتل کیس میں پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، حسنین گل، شیر زمان، رفاقت اور رشید گرفتاری کے بعد سلاخوں کے پیچھے تھے، ان افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا جاتا رہا ہے، عدالت نے ان افراد کو بری کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان افراد کو مزید ایک ماہ تک نظربند رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اس کیس میں سزا پانے والے پولیس افسران نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جبکہ پیپلز پارٹی اور مرحومہ بےنظیر بھٹو کے بچوں نے بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 692677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش