0
Thursday 28 Dec 2017 21:39

متحدہ مجلس عمل بحال ہوچکی، اب حکمت عملی طے ہونا باقی ہے، علامہ ساجد نقوی

متحدہ مجلس عمل بحال ہوچکی، اب حکمت عملی طے ہونا باقی ہے، علامہ ساجد نقوی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ مجلس عمل مکمل بحال و فعال ہوچکی، البتہ مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، اتحاد کے فیصلوں کے مطابق آئندہ کی حکمت عملی متفقہ طور پر طے کی جائے گی، قبل از وقت متفرق بیانات سے گریز کیا جائے، متحدہ مجلس عمل انتخابی عمل میں حصہ لینے کیساتھ اسلامی نظریہ، تشخص اور تہذیب کے تحفظ کیساتھ ملک کو کرپشن سے پاک اور دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کے مقاصد پر عمل پیرا ہے، سیاسی قوتوں کی مفاہمتی پالیسوں کی تبدیلیاں بھی سیاسی صورتحال میں نئی تبدیلیوں کی پیش خیمہ ہیں، ذمہ داران بیرونی دوروں میں قومی مفادات اور تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی سیکرٹری اطلاعات پروفیسر ذوالفقار حیدر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ 5 بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ایک مرتبہ پھر فعال ہونا انتہائی خوش آئند ہے، اس کے اعلٰی و ارفع مقاصد میں انتخابی عمل میں حصہ لینا جہاں مقصود تھا، وہیں اسلامی نظریہ اور اسلامی تہذیب کا تحفظ، مساجد و مدارس، منبر و محراب کا وقار، معاشی استحکام، کرپشن کا خاتمہ اور داخلی و خارجی محاذ پر ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کو مل کر ناکام بنانا بھی بڑے مقاصد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2002ء میں بھرپور کامیابی کے بعد بدقسمتی سے یہ اتحاد 2008ء کے انتخابات میں کچھ وجوہات کی بناء پر فعال نہ رہ سکا اور تقریباً 9 سال مسلسل کاوشوں کے بعد اب دوبارہ پانچ بڑی مذہبی جماعتیں اس اتحاد کے قیام، بحالی اور فعالیت پر متحد ہوگئیں اور بالآخر یہ اتحاد اب دوبارہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہوچکا ہے، البتہ ابھی مستقبل کی حکمت عملی طے کرنا باقی ہے، جس کیلئے جلد سربراہی اجلاس ہوگا، اتحاد کے فیصلوں کے مطابق آئندہ کی حکمت عملی متفقہ طور پر طے کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد کے حوالے سے قبل از وقت متفرق بیانات سے گریز کیا جائے اور حتمی فیصلوں کا انتظار کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور قوتوں کی مفاہمتی پالیسیاں بھی تبدیل ہو رہی ہیں، جو سیاسی صورتحال میں نئی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں، سیاستدانوں کو چاہیے کہ صرف وقتی سیاست اور بیان بازیوں کی بجائے ملکی وقار، بقاء اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی کا بھی مظاہرہ کریں اور پھر ایسے بیانات سے بھی گریز کریں، جو بعدازاں واپس لینا پڑ جائیں۔ دوسری جانب انہوں نے حکومتی ذمہ داران کی بیرون ملک دوروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی چیلنجز کیساتھ ساتھ ملک کو درپیش داخلی صورتحال بھی سامنے رکھنا ہوگی، ذمہ داران ان دوروں کے دوران ملک کے تمام طبقات کے حقوق اور پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 693174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش