0
Friday 29 Dec 2017 19:57

افغانستان میں حملے کیوں نہیں رک رہے؟

افغانستان میں حملے کیوں نہیں رک رہے؟
اسلام ٹائمز۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو میں معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کابل بہت زیادہ غیر محفوظ ہوچکا ہے، گذشتہ ہفتے ہم وہاں گئے تو چپے چپے پر چیک پوائنٹس تھے، لیکن حملے رک نہیں رہے۔ کابل کے ساتھ غزنی، ہلمند اور بلخ میں بڑے حملے ہوئے ہیں، کل بلخ میں جیل کو توڑا گیا، کئی قیدی فرار ہوگئے، ادھر منشیات کا کاروبار عروج پر ہے، ستم یہ ہے کہ افغانستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے اختلافات تو پہلے ہی تھے، اب بلخ کے گورنر عطا محمد نور نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، وہ 13 سال بلخ کے گورنر رہے ہیں، نئے گورنر انجینئر محمد داؤد ایک ہفتے سے انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے عہدے کا چارج لیں، لیکن ان کو عہدہ نہیں دیا گیا۔ طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوگیا تھا، اب داعش کے حملوں میں تیزی آئی ہے، امریکہ نے مزید فوجی افغانستان بھجوائے اس سے بھی کام نہیں بن رہا۔

امریکی پچھلے 17 سال سے جنگ لڑ رہے ہیں، پہلے ڈیڑھ لاکھ فوج تھی، اب افغانستان میں 20 ہزار غیر ملکی فوجی ہیں، صدر ٹرمپ نے 21 اگست کو اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا، اس کے بعد مزید امریکی فوجی بھیجے گئے، ڈرون حملوں اور بمباری میں اضافہ ہوا، لیکن اس کے جواب میں طالبان نے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ داعش بھی میدان میں آگئی ہے، یہ مسئلے کا حل نہیں۔ جتنی طاقت استعمال کریں گے، اتنی ہی جوابی کارروائی ہوگی۔ امریکہ اپنی پہلی غلطی کو دہرا رہا ہے، اس نے پہلے بھی طاقت استعمال کی، وہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوا، اسے بات چیت کے ذریعے ماحول کو سازگار بنانا ہوگا، افغانستان میں بدامنی بڑھے گی تو امریکہ اور کابل کی طرف سے پاکستان پر مزید الزام تراشی ہوگی اور امریکہ ڈو مور کا مزید مطالبہ کرے گا، یہ صورتحال امریکہ کے بس میں نہیں، اس لئے وہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے یا ان کے خلاف کارروائی کرے۔

اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ مزید افغان بے گھر ہوں گے اور ہزاروں لوگ شاید پاکستان آجائیں جبکہ پہلے ہی ہمارے ہاں 25 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں، اس طرح پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان نے خود کو محفوظ بنانے کے لئے بارڈر پر باڑ لگانا شروع کر دی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر باڑ لگ چکی ہے، بارڈر پر ڈیڑھ سو قلعے بنائے گئے ہیں، لیکن اس میں ایک طویل عرصہ لگے گا۔ پاکستان کی یہ کوشش ہوگی کہ امن کے لئے کوششیں تیز کی جائیں۔ چین نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ایک نئی کوشش شروع کی ہے، لیکن یہ بھی امریکہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، میرے خیال میں صرف علاقائی حل ممکن نہیں ہوگا، امریکہ کا تعاون بہت ضروری ہے، امریکہ رکاوٹ ڈالے گا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 693646
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش