1
0
Thursday 4 Jan 2018 11:30

ایران میں احتجاج اور انسانی حقوق کے دعویداروں کا درد

ایران میں احتجاج اور انسانی حقوق کے دعویداروں کا درد
تحریر: نادر بلوچ

ایران میں کیا ہو رہا ہے، اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں موضوع سخن بنا ہوا ہے، بہت سارے دوستوں نے واٹس ایپ پر میسجز کئے تو کئی افراد نے براہ راست ملاقات میں ایران کی صورتحال پر استفسار کیا، راقم خود کئی دنوں سے ان مظاہروں سے متعلق خبروں کو دیکھ رہا ہے اور تہران اور مشہد میں مقیم پاکستانی دوستوں سے بھی رابطے میں ہے، تاکہ اصل معلومات حاصل کرکے دوستوں کو حقیقت کے قریب تر صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے۔ اب تک فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا پر اردو میڈیم سے تعلق رکھنے والے قارئین تک جتنی بھی معلومات پہنچی ہیں، وہ بی بی سی، سی این این اور فاکس نیوز سمیت ایران مخالف ممالک کے میڈیا ہاوسز کی جانب سے فراہم کردہ معلومات ہیں، یا پھر مجاہدین خلق جنہیں ایران میں منافقین خلق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے سوشل میڈیا پیجز اور ویب سائٹس سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، اس لئے ایسی کوئی بھی تحریر جو مذکورہ ذرائعے سے حاصل ہوئی ہے، یقیناً اس میں اینگلنگ کا عناصر نمایاں نظر آتا ہے، اس کی بنیادی وجہ معلومات کے یہ خاص منابع ہیں، جو ایک خاص پروپگینڈا مہم میں مصروف ہیں۔

مجھے ایک دوست نے کچھ لنکس بھیجے کہ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ایران میں کیا رہا ہے، جب میں نے خود ان لنکس کو اوپن کیا تو معلوم ہوا کہ مریم رجوی اور اس کی ٹیم یا اس کے نظریاتی کارکن مخصوص پیجز کو چلا رہے ہیں، خود مریم رجوی کا ٹوئٹر اکاونٹ اس کام پر لگا ہوا ہے اور خوب پروپگینڈا مہم چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان پیجز پر سپین میں پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی فوٹیجز بھی دکھائی گئی ہیں اور انہیں ایران سے جوڑا گیا ہے۔ اسی طرح ان پیجز پر متعدد جعلی ویڈیوز موجود ہیں، جن کا تعلق ایران نہیں ہے لیکن کہتے ہیں ناں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ یہ مریم رجوی کون ہے اور مجاہدین خلق تنظیم کیا ہے اس پر آگے چل کر بات کریں گے۔ تو بات ہو رہی تھی ایران میں ہونے والے احتجاج کی، مشہد سے شروع ہونے والا پرامن احتجاج جو مہنگائی، بےروزگاری، مبینہ کرپشن اور حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے خلاف تھا، ان مظاہرین میں وہ لوگ بھی شامل تھے، جو انویسمنٹ بینکوں سے نقصان اٹھا چکے تھے، اس میں متوسط اور امیر دونوں طبقے کے لوگ شامل تھے۔ عوام کا غصہ حق بجانب تھا کہ انڈووں کی قیمتیں ڈبل ہوگئیں۔ صدر روحانی جنہیں معاشی پالیسیوں میں بہتری کیلئے دوسری باری منتخب کیا گیا تھا، ان کی حکومت ان چیزوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی، شروع میں یہ احتجاج پرامن تھا، لیکن اچانک اس میں تشدد کا عنصر سامنے آیا، یوں کرمانشاہ سمیت کئی شہروں میں بس اسٹینڈز، سرکاری املاک اور عام شہریوں کی گاڑیوں کو جلانے کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ وارداتوں کے ایسے ایسے طریقے سامنے آئے کہ خود ایرانی حکام بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

تہران اور اصفہان سمیت کئی شہروں میں ہفتے کے روز پیش آنے والے واقعات میں ایک چیز مشترک تھی کہ احتجاج کے دوران حکومتی معاشی پالیسیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے نظام کو نشانہ بنایا گیا۔ مساجد اور امام بارگایں نذر آتش کی گئیں، یوں کہیے کہ مذہبی مقدسات کی توہین کرنا شروع کر دی گئی، سپاہ پاسداران کے ہیڈ کے مطابق تین سے چار روز میں ہونے والے تمام مظاہرین کے تعداد کل ملاکر 15000 ہزار تک نوٹ کی گئی۔ گو کہ یہ تعداد 2009ء کے تہران کے مظاہروں سے کہیں کم تھی، دو ہزار نو میں تہران میں ہونے والے مظاہروں میں کم و بیش پندرہ لاکھ افراد کی تعداد بتائی جاتی ہے، جو احمدی نژاد کے دوسری بار جیتنے کیخلاف اٹھے تھے، لیکن بعد میں پرتشدد کارروائیاں سامنے آئیں، جس کے باعث عام عوام نے شرکت سے معذرت کرلی اور گھروں میں بیٹھ گئے تھے، اس وقت ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں، کئی حلقوں پر دوبارہ انتخاب کرانے کا مطالبہ سرفہرست تھا، لیکن جب کچھ عناصر کی طرف سے عاشورہ کی توہین کی گئی اور ایک مسجد کو نذرآتش کیا گیا تو عوام سمجھ گئے اور آئندہ ان مظاہروں میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

ایرانی حکام نے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث کئی شہروں میں گرفتاریاں بھی کی ہیں اور مزید گرفتاریوں کا بھی امکان ہے، بتایا جا رہا ہے کہ ٹیلی گرام کا ایک چینل بھی ٹریس ہوا ہے، جو ترکی سے ہنڈل ہو رہا تھا، اس چینل میں کئی لاکھ ایرانی ایڈ تھے، جنہیں احتجاج کرنے اور پولیس سے نمٹنے کے طریقے سکھائے جا رہے تھے، اس پر ایرانی منسٹر نے ٹیلی گرام کے مالک کو ٹوئٹ بھی کیا، جس کے بعد متنازع مواد ہٹا دیا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی احتجاجات شروع ہوئے فوراً امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ بھی سامنے آگئے، امریکی صدر نے بیان داغا کہ وقت آگیا ہے کہ ایرانی قوم اٹھ کھڑی ہو اور کرپٹ رجیم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بھی نہ رہا گیا اور ویڈیو پیغام جاری کر دیا کہ "وقت آنے والا ہے، جب پہلے کی طرح اسرائیلی اور ایرانی عوام دوست بن جائیں گے، اس ظالم رجیم سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔" ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھی سامنے آئے اور انہوں نے بتایا کہ پرتشدد مظاہروں میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ملوث ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو شام اور عراق میں شکست ہوئی اور داعش جیسے فتنے کی ناک رگڑی گئی، شام و عراق میں داعش کے خاتمے کے اعلان کے چند ہفتوں بعد ہی ایران میں ایک فتنہ شروع ہو جاتا ہے، جو اپنے حقوق کے لئے جمع تھے، وہ ابھی اپنے گھروں اپنے بیٹھ گئے ہیں کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے، کیونکہ پرشدد مظاہرے ریاست کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کارروائی کا جواز بنتے ہیں۔ امریکی صدر نے نئے سال کے آغاز پر پہلی ٹوئٹ پاکستان کے خلاف ماری اور پاکستانیوں کو دھوکہ باز اور جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی تو دوسری ٹوئٹ ایران مخالف کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے ایک ہی وقت میں ایران اور پاکستان دونوں کو للکارا، ظاہر ہے کہ عراق و شام میں محاذ ٹھنڈا پڑ گیا ہے تو اب افغانستان میں ایک نیا محاذ گرم کرنا ہے، چین اور روس کو سبق سیکھانے اور اپنے اسٹریٹیجیک مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان اور ایران کو ٹف ٹائم دینا اگلا ٹارگٹ ہے۔ دوسرا افغانستان دونوں ملکوں کی سرحدوں کو لگتا ہے اور تینوں آپس میں ہمسایہ ملک ہیں۔

ایران کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں کچھ خود ساختہ دانشور بھی اپنی دانشوری جھاڑ رہے ہیں، اپنے آرٹیکلز میں یہاں تک مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ایران سے نظام ولایت کو ختم کر دینا چاہیئے اور وہاں لبرل ڈیموکریسی نافذ ہونی چاہیئے، کچھ احباب کے نزدیک نظام ولایت ایک خود ساختہ نظام ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ لبرل جموریت کونسے صحیفے آسمانی میں لکھا ہوا نظام ہے، جس پر اتنے قانع نظر آتے ہیں اور ایران میں رائج جمہوریت سے ناخوش ہیں، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہر ملک نے حسب ذائقہ اور اپنے حساب کتاب سے جمہوریت نافذ کی ہوئی ہے، ایران میں اس سے بڑھ کر اور کیا جمہوری روایت ہوگی کہ وہاں آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کے دوران ایک دن کیلئے بھی الیکشن ملتوی نہیں ہوئے، پھر انہیں یہ درد کیوں اٹھتا ہے۔؟ اگر ایک لمحے کیلئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حقیقی جمہوریت وہی ہے جو امریکہ، انگلینڈ، بھارت اور دیگر ملکوں میں رائج ہے تو اس لبرل جمہوریت کے ثمرات تو پوری دنیا سمیٹ رہی ہے، سب نے دیکھا ہے کہ اس لبرل جمہوریت کے نتیجے میں اعلٰی اقدار کا حامل شخص ٹرمپ امریکہ کا صدر بنتا ہے، اوباما صدر بنتا ہے، بل کلنٹن صدر بنتا ہے یا پھر عراق و افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا قاتل صدر بش سامنے آتا ہے۔ اس لبرل جموریت کو دیکھیں تو نیتن یاہو سامنے آتا ہے، مودی سامنے آتا ہے۔ اس لبرل ڈیموکریسی نے سوائے خون بہانے کے اس دنیا کو کیا دیا ہے۔؟

ایران میں اگر ولی فقیہ موجود ہیں تو ان کا انتخاب بھی جمہوری طور طریقہ سے ہوتا ہے، ولی فقیہ کے چناو کیلئے قائم ادارے مجلس خبرگان کے ممبران کے بھی الیکشنز ہوتے ہیں۔ اب لبرلز کی مرضی سے وہاں کا الیکشن کا نظام ہو یہ ضروری تو نہیں، یہ اختیار تو امریکہ اور اس کے حواری بھی نہیں دیتے۔ اپنے تجزیات میں ایرانی نظام کا تختہ الٹنے والے یاد رکھیں کہ نظام کو بدلنے کیلئے متبادل نظام سامنے لانا پڑتا ہے، کسی نظریہ کو ختم کرنے کیلئے اس سے بڑا نظریہ سامنے لانا پڑتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ کسی بھی نظام کو ہٹانے یا ختم کرنے کیلئے عوامی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک ایران میں رائج نظام کے پیچھے وہاں کے عوام کھڑے ہیں، اس وقت نظام ولایت کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ شام و عراق میں دیکھ لیا گیا کہ داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو اربوں ڈالر سرمایہ گزاری کرنے اور اسلحہ سے لیس کرنے کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکا۔ کس طرح سے شام میں ایک اپوزیشن کے نام پر دہشتگردوں کو سپورٹ کیا گیا، وہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔

ایران میں معاشی مسائل کیوں ہیں، اس پر نام نہاد لبرلز کبھی سوچنے اور لکھنے کی کوشش کریں۔ ایران کے نظام ولایت فقیہ کے پیچھے تو وہ عوام ہیں، جو گذشتہ چار دہائیوں سے لبرل ڈیموکریسی کی مالا جھبنے والے ملکوں کی طرف سے قاتل معاشی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان نام نہاد جمہوری ملکوں نے انسانی قدروں اور حقوق کی پامالی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، ایران کے عوام کی جتنی معاشی اور دیگر مسائل ہیں، ان کے یہ ممالک براہ راست ذمہ داری ہیں۔ پابندیاں ہٹائی جائیں، ایران کیلئے تمام ممالک کے دورازے کھولے جائیں، پھر دیکھیں کہ ایران معاشی ترقی میں کیسے آگے نہیں جاتا۔ ایرانی بینک بلیک لسٹ، کمپنیاں بلیک لسٹ، تجارت وہ نہیں کرسکتے، تیل وہ فروغ نہیں کرسکتے تو معاشی سرگرمیاں کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایران کو سزا ایک ناجائز اور جعلی ریاست کے تحفظ کی خاطر دی جا رہی ہے، جسے ایران ناصرف تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈرز متعارف کرانے والے اور نئے مشرق وسطٰی کے خواب دیکھنے والوں کو شکست ہی دیکھنا پڑے گی، گو کہ اس کاز میں عرب ممالک بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اگلی قسط میں مریم رجوی اور مجاہدین خلق کا جائزہ لیں گے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 694665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

گلفام حیدر سید
Pakistan
بہت اعلٰی، اللّٰہ تبارک تعالٰی ترقی عطا فرمائے۔
ہماری پیشکش