0
Monday 8 Jan 2018 19:45
یمن کا مسئلہ فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا

انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اسکے نظریاتی مراکز کو پوری طرح تباہ کیا جائے، جواد ظریف

نسلی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینا خطے اور پوری دنیا کیلئے خطرناک ہے
انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اسکے نظریاتی مراکز کو پوری طرح تباہ کیا جائے، جواد ظریف
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے علاقے کے ممالک کی ارضی سالمیت اور قومی اتحاد کے تحفظ کو ایک ناقابل انکار ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق اور شام میں علیحدگی پسندی کے رحجان کو بڑھاوا دے کر مسلکی اور نسلی اختلافات کو ہوا دینے کا منصوبہ علاقے اور پوری دنیا کے لئے خطرناک ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے تہران میں دوسری سکیورٹی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امریکہ کی مداخلت اور پالیسیاں ایسے بنیادی چیلنجز ہیں کہ جن کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، شام میں غیر قانونی فوجی موجودگی کے ذریعے اپنی تخریبی اور کشیدگی کو ہوا دینے والی پالیسیوں پر ہی اڑا ہوا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ بدستور ایک انتہائی ایسا سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے، جو علاقے اور دنیا کو درپیش ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ذریعے بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے امریکہ کی کھلم کھلا دشمنی کا اعلان اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے لئے میدان فراہم کرنا ہے۔

محمد جواد ظریف نے یمنی عوام پر سعودی عرب کے مسلسل وحشیانہ حملوں کو علاقے میں کشیدگی اور بدامنی کا ایک اور سبب بتایا اور کہا کہ یمن پر گذشتہ تینتیس مہینے سے لاحاصل حملے کرنے والے جارح ملکوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یمن کا مسئلہ فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے علاقے میں ہتھیاروں کی دوڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے ہمسایہ ملک کو کمزور اور وہاں بدامنی پیدا کرکے اپنی سکیورٹی کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ داعش کے عناصر، اس سے وابستہ اور اس جیسے دیگر گروہ ابھی بھی سرگرم ہیں، کہا کہ نئے علاقوں میں انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے نظریاتی مراکز کو پوری طرح تباہ کیا جائے اور انتہا پسندوں کے لئے ہر طرح کی مالی امداد بند کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کو دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سرفہرست رکھا جائے، اسی صورت میں دہشت گردی کا حقیقی معنوں میں مقابلہ کیا جا سکے گا۔ قابل ذکر ہے کہ دوسری تہران سکیورٹی کانفرنس پیر کو تہران میں شروع ہوئی ہے، جس میں دنیا کے انچاس ملکوں کے سکیورٹی اور سیاسی عہدیدار اور ان شعبوں کے محققین شریک ہیں۔ اس کانفرنس میں مغربی ایشیاء کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں ایران کے کردار اور اسی طرح علاقے اور علاقے سے باہر کے اسٹیک ہولڈروں کے رول اور علاقے کی سکیورٹی میں اقتصادی ترقی نیز استقامتی محاذ کے تعاون جیسے موضوعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 695826
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش