0
Wednesday 4 May 2011 11:55

پیشگی اطلاع اور اجازت کے بغیر امریکی آپریشن کسی بھی قاعدے قانون کے تحت نہیں آتا،یکطرفہ کاروائی پر شدید تحفظات ہیں، پاکستان

پیشگی اطلاع اور اجازت کے بغیر امریکی آپریشن کسی بھی قاعدے قانون کے تحت نہیں آتا،یکطرفہ کاروائی پر شدید تحفظات ہیں، پاکستان
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ پیشگی اطلاع اور اجازت کے بغیر جس طرح ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کیا گیا اس سے عالمی امن متاثر ہو سکتا ہے، امریکی آپریشن کسی بھی قاعدے قانون کے تحت نہیں آتا، یکطرفہ کارروائی پر شدید تحفظات ہیں۔ پاکستان نے ان اطلاعات کی بھی سختی سے تردید کی کہ حکومت پاکستان، سول اور فوجی قیادت کو 2 مئی کی علیٰ الصبح ہونے والے امریکی آپریشن کے بارے میں پیشگی علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سول اور عسکری قیادت امریکی کارروائی سے لاعلم تھی، امریکی فورسز نے پاکستان کے اندر کوئی اڈا استعمال کیا نہ پاک فوج نے کوئی آپریشنل یا لاجسٹک معاونت دی، آئی ایس آئی کی کامیابیاں دنیا کی دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ منگل کو دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ اسامہ کے اہلخانہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں،کچھ کو طبی امداد دی جا رہی ہے اور انہیں متعلقہ ممالک کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کی موت کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان اور اس کے ریاستی ادارے اسامہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے تھے تاہم حکومت نے پیشگی اطلاع یا اجازت کے بغیر امریکی حکومت کے آپریشن پر گہری تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر اجازت یکطرفہ کارروائی کے اس واقعے کو ضابطہ نہیں بنایا جا سکتا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایبٹ آباد اور اس کے ملحقہ علاقوں پر 2003ء سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں 2004ء میں آئی ایس آئی کے انتہائی ٹیکنیکل آپریشن کی بدولت القاعدہ کے ہائی ویلیو ٹارگٹ کی گرفتاری عمل میں آئی۔ بیان کے مطابق جہاں تک حالیہ امریکی آپریشن میں نشانہ بنائے جانے والے کمپاؤنڈ کا تعلق ہے آئی ایس آئی 2009ء سے سی آئی اے اور دیگر دوست ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتی رہی اور ایبٹ آبادکے نواح میں بعض غیر ملکیوں کی موجودگی کی نشاندہی سے متعلق انٹیلی جنس کے تبادلے کا سلسلہ اپریل 2011ء تک جاری رہا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سی آئی اے پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ انٹیلی جنس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اسامہ تک پہنچی اور اس حقیقت کا اعتراف امریکی صدر اور وزیر خارجہ نے اپنے بیانات میں بھی کیا ہے۔
بیان میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سی آئی اے اور بعض دیگر دوست انٹیلی جنس ایجنسیاں آئی ایس آئی کی فراہم کردہ انٹیلی جنس سے بھرپور مستفید ہوئیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غازی ائر بیس سے امریکی ہیلی کاپٹروں کی اڑان بھرنے کے متعلق رپورٹس قطعی غلط اور بے بنیاد ہیں، امریکی فورسز نے نہ تو پاکستان کے اندر کوئی اڈہ یا سہولت استعمال کی نہ ہی پاکستان آرمی نے امریکی فورسز کے ان آپریشنز کے لیے کوئی آپریشنل یا لاجسٹک معاونت فراہم کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹرز پہاڑی علاقے کے باعث ریڈار پر سگنل نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔ امریکی ہیلی کاپٹروں کے پاکستان میں داخلہ کی نشاندہی نہ ہونے کی وجہ پہاڑی علاقہ، جدید ٹیکنالوجی اور پرواز کرنے کی "نیپ آف دی ارتھ" ٹیکنیک کا استعمال ہے۔ بیان کے مطابق اس اوپن سویلین علاقے اور بعض فوجی، سیکورٹی تنصیبات جہاں پر بھرپور مقامی دفاعی انتظامات ہیں، کے درمیان مماثلت قائم کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعہ کی اطلاع ملنے پر پاکستان فضائیہ نے منٹوں کے اندر اپنے جیٹ جہاز روانہ کیے جس کی تصدیق وائٹ ہاؤس کے مشیر جان برینن نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس طرح کی ہے کہ ہم نے اپنے تمام لوگوں اور اپنے جہازوں کے پاکستان کی فضائی حدود سے نکلنے تک پاکستان سے رابطہ نہیں کیا، اس وقت پاکستانی ایک واقعہ پر کارروائی کر رہے تھے جس کا انہیں علم تھا کہ ایبٹ آباد میں پیش آیا ہے اس لیے انہوں نے اپنے بعض اثاثوں کو روانہ کیا، ہم اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ ہمارے لوگ اور ہمارے جہاز پاکستان کی فضائی حدود سے نکل جائیں اور شکر ہے کہ پاکستانی فورسز کے ساتھ ہمارا کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا، یہ آپریشن اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ پاکستانی فورسز کے ساتھ ٹکراؤ کا امکان کم سے کم رہے۔ بیان کے مطابق ان تمام حوالوں سے قطع نظر حکومت پاکستان کو پیشگی اطلاع یا اجازت کے بغیر کیے جانے والے امریکی حکومت کے اس آپریشن پر گہری تشویش اور تحفظات ہیں۔ بغیراجازت یکطرفہ کارروائی کے اس واقعہ کو ضابطہ نہیں بنایا جا سکتا، حکومت پاکستان باور کراتی ہے کہ اس طرح کا واقعہ امریکا سمیت کسی بھی ملک کے لیے آئندہ مثال نہیں بنے گا، اس طرح کی کارروائیاں تعاون کے لیے نقصان دہ ہیں اور بعض اوقات عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بھی ہو سکتی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ وافر جدید تکنیکی اثاثوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے نے اسامہ کی نشاندہی اور اس تک رسائی کے لیے ہماری جانب سے فراہم کی گئی خفیہ معلومات کو بروئے کار لایا اور اس حقیقت کا اعتراف امریکی صدر اور وزیر خارجہ نے بھی اپنے بیانات میں کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 69739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش