0
Thursday 15 Feb 2018 23:27

اسکردو نے برف کی چادر اوڑھ لی، برفباری نے شہر کا منظر مسحور کن بنا دیا

اسکردو نے برف کی چادر اوڑھ لی، برفباری نے شہر کا منظر مسحور کن بنا دیا
اسلام ٹائمز۔ بلتستان کے گرد و نواح میں رات کی برفباری نے شہر کا منظر مسحور کن بنا دیا، دم توڑتی سردیوں کے موسم میں برفباری کے ہر کوئی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تفصیلات کے مطابق بلتستان ڈویژن کے دونوں اضلاع اسکردو اور گنگچھے کے تمام بالائی اور نشیبی علاقوں میں گزشتہ رات جم کے پڑنے والی برفباری نے منظر قابل دید بنا دیا ہے۔ سردیوں کے تین مہینوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی برفباری سے ہر کوئی متاثر ہوتا ہے اور ہر کوئی شاکی ہوتا ہے، فروری کے اواخر میں جب سردی دم توڑ رہی ہوتی ہے اسوقت کی برفباری سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید برف باری کا امکان ہے، جبکہ دوسری جانب برف باری پر اسکردو کے شہری کافی خوش دیکھائی دے ہیں۔ شہریوں کا کہنا برف باری کے بعد قحط سالی کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ اس سال برف باری کم ہونے کے باعث اسکردو اور گردنواغ میں قحط سالی کا خطرہ تھا۔ دوسری طرف شعراء بھی اس حسین ماحول پر طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے احساسات و جذبات کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ بلتستان کے معروف شاعر عارف سحاب نے برفباری کے منظر کو شعر کے قالب میں ڈھال کر کچھ یوں پیش کیا ہے:

قدم رک سے گئے ہیں برفباری دیکھ کر میرے

مجھے تم کہا تھا کہ محبت برف جیسی ہے


جنت نظیر خطہ اسکردو میں برفباری کے مناظر سے متاثر ہوئے بغیر نامور شاعر احمد فراز بھی نہیں رہ سکے۔ انہوں نے اپنے شعر میں جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا:

ہم بھی اک شعلہ شمائل کو لیے ساتھ چلیں

اب کے گر برف کہستانِ سکردو میں پڑے


ارض شمال (گلگت بلتستان) ہی کے ایک نوجوان شاعر الطاف سروش نے اپنی ایک خوبصورت نظم میں برفباری کے منظر کچھ یوں بیان کیا ہے:
 
ہے سحر زار کی مانند کہر پوش چمن
 
منجمد اپنے ہی پندار میں سب سرو سمن
 
زندگی موج ِ خنک دار سے مفلوج ہے اور
 
جنوری سرد ہواﺅں سے تمسخر میں مگن
 
برف کے بوجھ سے جھکتی ہوئی شاخوں کا سکوت
 
پارسا جیسے شب ِ تار میں ہوں محو ِ قنوت
 
راہداری میں جمی سخت کَکر کی پھسلن
 
جس میں مصروف ِ تماشا ہیں کئی طفل و جواں
 
اپنی چوکھٹ سے اُدھر میں بھی کھڑا رو بہ فلک
 
تیری یادوں کی قبا اوڑھ کے تن پر اپنے
 
دیکھتا رہتا ہوں تا دیر خموش و ساکن
 
یوں ہی بس برف کے گرتے ہوئے گالوں کی طرف
 
کیا عجب خواب سا منظر ہے یہ دیکھو تو سہی
 
عرش سے فرش کی پوشاک بدلنے کے لیے
 
سرد دھاگوں سے بُنی برف زمیں پہ اتری
 
ہر طرف پھیل گیا ایک ہی رنگ ِ سادہ
 
ایسا لگتا ہے زمیں ہے کوئی کورا کاغذ
 
جس میں تحریر نہ تصویر نہ خاکہ کوئی
 
برف کو دیکھ کے اے جان ِ جہاں یاد آیا
 
برف سا میرا لبادہ تھا، لبادہ نہ رہا
 
میں بھی سادہ تھا کبھی برف سا، سادہ نہ رہا۔
خبر کا کوڈ : 705069
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش