0
Monday 19 Feb 2018 11:55

شہید عماد مغنیہ کا قصاص میزائیل حملے سے نہیں اسرائیل کے انہدام کی صورت میں لیں گے، قاسم سلیمانی

شہید عماد مغنیہ کا قصاص میزائیل حملے سے نہیں اسرائیل کے انہدام کی صورت میں لیں گے، قاسم سلیمانی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جموریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید الحاج رضوان ( عماد مغنیہ) کی دسویں برسی کی مناسبت سے راز رضوان کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی سپاہ قدس کے سپہ سالار میجرجنرل قاسم سلیمانی نے حاضرین اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسلامی مزاحمت تحریک کے شہداء کو خراج تحسین پیش کہا کہ تکریم و تعظیم شہداء کی یہ مجلس آج لبنان میں شہید سید عباس موسوی، شہید راغب حرب اور شہید عماد مغنیہ پر خصوصی توجہ کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ یہ مجلس پہلی مجلس ہے، جو ایک علمی دائرے میں ایک شہید کی شخصیت کے حوالے سے منعقد ہو رہی ہے، جن کے وجود اور شہادت نے عالم اسلامی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ شہید عماد کا نام دشمن پر ہیبت طاری کرتا تھا اور دوستوں کے لئے نشاط آور اور امید آفریں تھا۔ آغاز کار میں شہید عماد مغنیہ نے اپنے لئے مختار کا جہادی نام منتخب کیا اور اپنے جہادی سفر کے دوران اسے رضوان کا نام منتخب کیا اور شہادت سے رضوان الہی پر فائز ہوئے۔ فطری بات ہے کہ آج کے سیمینار کے لئے مختلف شخصیات نے مقالات تحریر کئے ہیں، جنہیں یہاں پڑھا جائے گا، میں بھی اپنی صلاحیت کی حدود میں اپنے ایک عزیز دوست کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جن کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کا ایک اہم عرصہ گذارا ہے۔

عماد مغنیہ کی شخصیت اور ان کی قدر و قیمت اور کردار و شخصیت آج تک عالم اسلامی کے شیعہ اور سنی جہادی اور مجاہد نوجوانوں،  حتیٰ کہ راہ حق میں جدوجہد کرنے والے مسیحی نوجوانوں کے درمیان انجانی ہے۔ یہ کانفرنس اور دوسری کوئی کانفرنس ان کی شخصیت کو عیاں نہیں کرسکتی، جب تک کہ صاحبان قلم، فنکار و ہدایت کار اور ایسے صاحب صلاحیت افراد، جو کہ ایسی شخصیتوں کو نمایاں کرسکتے ہیں، میدان میں نہیں آتے۔ آج سب پر واجب ہے کہ ان شخصیات کو متعارف کروا کر ان کے روشن راستے کی صحیح شناخت کروائیں۔ آج اس عصر کے اسطورے (ہیرو) کی شہادت کی دسویں برسی منائی جارہی ہے۔ یہ لفظ اسطورہ، ہماری زبانوں پر مسلسل جاری ہوا ہے، لیکن حقیقت میں ان مجاہدوں میں، خواہ وہ جو جام شہادت نوش کر گئے، خواہ وہ جو محاذ مزاحمت میں ہر روز شہادت کا انتظار کررہے ہیں، عماد مغنیہ جیسا اسطورہ میں نہیں پہچانتا، ایسا مجاہد جس کی شہادت دنیا والوں کی حیرت کا سبب بنا اور عالم اسلام میں غم عظیم کی لہر دوڑائی۔ میں نے امام خمینی (رح) کی رحلت کے بعد، علماء کے سوا، عام لوگوں میں عماد مغنیہ جیسی شخصیت نہیں دیکھی جن کی شہادت نے پوری اسلامی دنیا کو محزون و مغموم کردیا اور یہ مسئلہ لبنان تک محدود نہ تھا بلکہ پوری اسلامی دنیا غم زدہ ہوئی۔

یہ عماد مغنیہ کی اہم ترین خصوصیت تھی جو ان کے بارے میں کم ہی کہی جاتی ہے، وہ تمام لوگ جو خاص قسم کے امور میں کردار ادا کررہے ہیں، ممکن ہے کہ اپنے کام میں ایک مہارت اور تخصص حاصل کریں اور پیشہ ور ہوجائیں۔ بعض ان پیشہ وروں کی طرح ہیں جو امریکیوں نے بلیک واٹر کی شکل میں پالے ہیں۔ اس طرح کا انسان نجات دہندہ نہیں ہے۔ اگر حرفت و مہارت اعلٰی معنوی اور روحانی اوصاف سے متصف نہ ہو تو تباہ کن ہوگی اور اس بولڈوزر کا کردار ادا کرے گی، جو کسی بھی عمارت کو منہدم کرسکتی ہے۔ الحاج عماد کی عقل، دانش اور شجاعت ان کے ایمان کے دائرے میں محدود تھی، ان کا ایمان ہمیشہ ان کے عمل اور اقدام کے لئے ایک حریم قرار دیتا تھا اور ان کے اعمال کی نگرانی کررہا تھا۔ اعمال نے حزب اللہ کی تاسیس سے قبل ہی حزب اللہ کی بنیاد رکھی تھی۔ عام طور پر زیادہ تر فرصت اس وقت ملتی ہے،، جہاں امید موجود ہے اور دشمن منہدم ہوجاتا ہے اور شکست کھاتا ہے اور وہاں امید بھی ہے لیکن بدترین حالات میں، جبکہ دشمن کو غلبہ حاصل تھا اور محض ناامیدی ہی ناامیدی تھی، وہ مواقع اور فرصتیں معرض وجود میں لاتے تھے۔ انھوں نے ناامیدی کی انتہاؤں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر (لبنان میں) صہیونی ریاست کی بساط لپیٹ لی، صہیونی افسروں کے اڈے کو تباہ کرکے بیروت کو نجات دلائی۔

اسرائیل لبنان میں حکومت قائم کرنے کی غرض سے گھس آیا تھا اور اس نے حکومت قائم کرلی تھی لیکن عماد نے اس حکومت کو بھی اور اس کے تسلط کو بھی اپنی ایجاد کردہ فرصت سے فائدہ اٹھا کر اور بروقت اقدام کرکے نیست و نابود کرکے صہیونی سازش کو خاک میں ملا دیا۔ صہیونی نواز آنتوان لحد کی فوج لبنانی فوج کا حصہ تھی اور یہ لوگ صہیونی ریاست سے جاملے تھے اور انھوں نے لبنان پر کنٹرول حاصل کیا جو نہایت خطرناک امر تھا۔ بہت عظیم المیہ تھا کہ لبنان میں ایک لبنانی قوت نے اپنی طاقت قابض صہیونیوں کے سپرد کرلی اور ایک تشویشناک صورت حال اور عماد نے اس تشویش کو ایک قیمتی فرصت میں بدل دیا اور لحد کی فوج کی بساط لپیٹ لی اور کرائے کے ان فوجیوں کو شکست دے کر اسے منہدم کرکے جنوبی لبنان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے سلامتی کے حوالے سے بہت سے تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر اس انداز سے دشمن کا تعاقب کیا کہ دشمن نے اثناءِ فرار اپنے زیادہ تر وسائل بھی چھوڑ دیئے۔ انھوں نے بعث پارٹی کے خاتمے کے لئے لبنان ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عراق میں بھی عراقی مجاہدین کی مدد کی اور انہیں ہمت و حوصلہ دیا۔ یہی وہ طاقتور شخصیت اور وہ اسطورہ اور افسانوی شخصیت ہے جنہیں پوری دنیا بہت اعلی الفاظ و عبارات سے یاد کرتی ہے۔

ان کے لئے اور ان سے مخاطب ہوکر سینکڑوں مقالے خطابات اور بیانات لکھے گئے ہیں اور کوئی بھی انہیں ہضم نہیں کرسکا ہے۔ کیونکہ حتٰی کہ دشمنوں نے بھی اپنے بیان سے عماد کی مداحی کی ہے اور میں نے یہ کیفیت صرف امام خمینی کی شخصیت میں دیکھی ہے، جن کی وفات کے وقت ان کے دشمنوں کے پاس ان کی مدح و تعریف کے سوا بیان کرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ لہذا جن لوگوں نے بیرونی دنیا میں عماد پر تنقید بھی کی ہے، انھوں نے بہت بلند عبارتوں سے ان کی مدح و تعریف کی ہے۔ عماد وہ کمانڈر تھے، جن کے کارناموں کی وجہ سے، تمام مغربی ممالک اور بعض عرب ممالک کے جاسوسی ادارے ان کا مشترکہ طور پر تعاقب کررہے تھے اور انھوں نے 25 سال تک مسلسل ان کے تمام اقدامات کو ناکام بنایا۔ وہ ادارے انہیں بہت اچھی طرح جانتے تھے اور نہایت عمدہ الفاظ سے ان کا تذکرہ کرتے تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ دشمن کے محاذ پر ہمہ جہت نظر رکھتے تھے، خود اٹھ کر دشمن کے مرکزی نقطے تک چلے جاتے تھے یہاں تک کہ ان کے تمام وسائل کو تباہ کردیتے تھے اور وہاں کہہ دیتے تھے کہ “میں رضوان نہیں ہوں بلکہ عماد مغنیہ ہوں”، بہت سے مقامات پر دوسرے کمانڈر ایک یونٹ لے کر، بڑی تعداد میں نفری اور بھاری ساز و سامان لے کر جایا کرتے ہیں، عماد تنہا آمد و رقت کرتے تھے، بات چیت کرتے تھے اور نکل جاتے تھے، اسی لئے دشمن نے انہیں ایک لقب دیا تھا اور کہتے تھے کہ وہ تلوار کی طرح دشمن پر اترتا ہے اور سائے کی طرح غائب ہوجاتا ہے۔

عماد ایک شمشیر کی طرح، ضرورت کے وقت، اتر آتے تھے اور تیزی سے غائب ہوجاتے تھے۔ یہ انسان اس خصوصیت کے ساتھ ایک عجیب فطرت کے مالک تھے۔ میری حیثیت ایسی نہیں کہ کسی کے لئے کوئی فقہی منصب متعین کرسکوں لیکن سید حسن نصراللہ آیت اللہ (اللہ کی نشانی) ہیں، کیونکہ وہ دشمن کے مد مقابل اللہ کی متعدد نشانیوں کے حامل ہیں اور وہ آيت الہی ہیں۔ عماد سید حسن نصراللہ کی طرح کی آیت الہی اور نادر شخصیت کے سامنے بہت زيادہ منکسر المزاج تھے، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ سید کوئی حکم دیتے تھے اور عماد کی رائے ان سے مختلف ہوتی تھی، لیکن وہ اپنے آپ کو ان کے حکم کی تعمیل کا پابند سمجھتے تھے اور کسی بھی مجاہد اور دوسرے فرد کو یاد نہیں ہے کہ حزب اللہ کے عالم و حکیم قائد کوئی بات کہہ چکے ہوں اور عماد اس کے پابند نہ ہوئے ہوں۔ میں بعض اوقات سید کو فکرمندی کی حالت میں دیکھتا تھا اور عماد آکر اول شب سے صبح تک ان کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے اور جب تک کہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ نچھاور نہ کرتے اور ان سے خوشنودی کا احساس وصول نہ کرتے ان کے گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ عماد کا نظریہ تھا کہ جس چیز نے ہمیں پابند کیا، جس نے ہمیں معتبر بنایا اور لبنان کو معتبر بنایا وہ سید حسن نصراللہ ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سید حسن نصراللہ کے فرامین کا پابند سمجھتے تھے۔

مظلوم شخص کے دو پہلو ہوتے ہیں اور ایک پہلو وہ واقعات ہیں جو اس کے ارد گرد رونما ہوتے ہیں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان عظیم بھی ہو کوشش بھی کرچکا ہو، جہاد بھی کرچکا ہو، لیکن کچھ لوگ اس کے جہاد کی نفی کی کوشش کریں اور اسی سلسلے میں اقدامات کریں۔ سید حسن اس لحاظ سے مظلوم ہیں کہ وہ نہ صرف شیعیان لبنان کے نجات دہندہ ہیں، بلکہ اہل سنت کے بھی نجات دہندہ ہیں اور عیسائیت کے لئے بھی نجات دہندہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور عیسائیت بھی اپنی بقاء کو سید کی تدبیر کے مرہون سمجھتی ہے۔ ان کی شہادت نے پورے عالم اسلام کو غم و اندوہ سے دوچار کیا اور دشمن کو خوش کیا، لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے اندر تولیدی قوت (Productive power) ہے، اسلام تسلسل کے ساتھ نئی شخصیات کو، اسی مدرسے میں جس میں عماد نے تعلیم و تربیت حاصل کی، پروان چڑھاتا ہے اور معاشروں کو پیش کرتا ہے۔ جس نکتے کو دشمن جانتا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اسے زیادہ سنجیدگی سے جان لے وہ یہ ہے کہ جو کچھ عماد کے خون کا قصاص ہے وہ ایک میزائل داغنا ہی نہیں ہے۔ عماد کے خون کا قصاص ایک ہی شخص کے قتل کا قصاص نہیں ہے۔ عماد اور ان تمام عمادوں کے خون کا قصاص، جو فلسطین اور لبنان میں شہید ہوئے ہیں یا ایران اور دوسرے مقامات پر شہید ہوئے ہیں، یہ ہے کہ طفل کُش صہیونی ریاست کی بساط لپیٹ لی جائے اور اس کی مکمل بیخ کنی کا انتظام کیا جائے۔

دشمن جانتا ہے کہ یہ حتمی اور اٹل امر ہے اور جانتا ہے کہ ان تمام شہادتوں کے موقع پر دسیوں بچے ہر روز اس مکتب میں اسی علامت کے ساتھ جنم لیتے ہیں اور شہداء کی خالی جگہوں کو پر کرتے ہیں۔ لہذا اللہ کہ یہ وعدہ ضرور بضرور عملی جامہ پہنے گا، ہم اللہ کے اس وعدے پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ ہم اللہ کے وعدہ کو سچا وعدہ سمجھتے ہیں اور ہم نے مختلف میدانوں میں اس وعدے کی سچائی کو بارہا دیکھ لیا ہے اور ان عظیم شہداء کے خون کے قصاص کے وقت بھی دیکھ لیں گے۔ ہم کسی بھی ہر رات سونے سے قبل دشمن کے بارے میں سوچتے ہیں اور دشمن ہر وقت ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ یہ ریاست زندہ نہیں رہ سکے گی اس کٹھ پتلی ریاست کے اعمال و افعال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک پائیدار ریاست نہیں ہے اور اس ریاست میں پائیداری اور بقاء کی کوئی بھی علامت نہیں دکھائی دیتی۔ صہیونی ریاست کی عدم بقاء اور ناپائیداری کو ہم اس کے اعمال و کردار اور آّثار سے محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس کی وحشت اور دیوانہ وار اقدامات اور ہاتھ پاؤں مارنے اور بےنتیجہ کاروائیوں کو دیکھ کر اس کے بھیانک انجام کو دیکھ رہے ہیں اور یہ سب اس کی آخری ناکام کوششیں ہیں اور یہ اس کی عدم بقاء اور تيزرفتار زوال کے ثبوت ہیں۔ شہید عماد مغنیہ، ان کے فرزند شہید جہاد مغنیہ اور فلسطین، لبنان، عراق اور دوسرے ممالک کے قابل احترام شہداء کا یہ جہاد جاری رہے گا اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ محاذ مزاحمت ایک محدود علاقے سے اٹھا ہے اور ایک وسیع علاقے میں پھیل چکا ہے اور ہر روز اس کی وسعت میں اضافہ ہورہا ہے۔

آخری بات:
ہم خداوند سبحان و متعال سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں اور عالم اسلام کے تمام مجاہدین کو اسی راستے پر اپنے ارادوں اور خواہشوں کے بر آنے اور اسلام اور مسلمان کی نجات کی توفیق عطا فرمائے، ہم کمر ہمت باندھ کر اور اپنی آراء و نظریات کی سطح خاک سے عرش تک بلند کرنے کی کوشش کریں۔ آج امت اسلامی کی حیات اور کامیابی کے لئے ہم میں سے ہر فرد کی ضرورت ہے۔ اللہ توفیق دے کہ ہم اپنی ہمت و حوصلے اسلام کے دفاع کے لئے بلند کریں، اور کمر ہمت باندھ لیں اور اس قابل قدر حرکت کو جاری رکھیں اور حق کے اس راستے کو کامیابی سے طے کریں جہاں ہم کامیابی کی چوٹیوں کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 705954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش