0
Friday 23 Feb 2018 13:18

پشاور میں عیسائی اقلیتی خواتین ووٹنگ کے حق سے محروم

پشاور میں عیسائی اقلیتی خواتین ووٹنگ کے حق سے محروم
اسلام ٹائمز۔ پشاور کی عیسائی اقلیتی خواتین میں سے صرف 21 فیصد کے پاس کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ موجود ہیں، جس کی وجہ سے 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں گی۔ یہ بات پشاور میں سپارک (سوسائٹی برائے تحفظ حقوق اطفال) کی رکن آسیہ عارف نے ایک ورکشاپ کے دوران بتائی۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں اقلیتوں کے ووٹ کے حق پر ایک سیمینار منعقد ہوا، جس میں اقلیتی برادری، وکلا، منتخب نمائندوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور فری اینڈ فیئر الیکشن (فافن) کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر پشاور میں ہونے والے ایک سروے کی رپورٹ کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے آسیہ عارف نے کہا کہ پشاور کے علاقے کوہاٹی میں 86 فیصد مرد اور 21 فیصد عیسائی خواتین کے ووٹ الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹر ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد نے 2018ء کے انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے میں رضامند ظاہر کی ہے۔ فافن کی جانب سے ظہیر خٹک نے بتایا کہ پشاور میں خواتین کے ووٹ کے اندراج کا تناسب بہت ہی کم ہے۔

فافن کے 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 4 کروڑ 24 لاکھ مردوں کے مقابلے میں صرف 1 کروڑ 21 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹر ہیں، جبکہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق مردوں اور عورتوں کا تناسب تقریباً برابر ہے۔ سپارک کے پروگرام مینجر سہیل اختر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ اقلیتی کمیونٹی میں گھر گھر جاکر خواتین میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 31 اپریل تک جن افراد کے پاس نادرا کا قومی شناختی کارڈ ہوگا، صرف وہی 2018ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرسکے گا۔ سکھ کمیٹی کے چئیرمین اور منارٹی رائٹس کے پریزیڈنٹ رادیش سنگھ ٹونی نے کہا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں اقلیتی خواتین کی نمائندگی شامل کی جائے اور اُن کے کوٹے میں اقلیتی برادری سے ایک خاتون کو بھی شامل کیا جائے، جبکہ خواتین ووٹروں کی حوصلہ افزائی کیلئے کم از کم 55 فیصدخواتین کے ووٹوں کے بغیر الیکشن رزلٹ کو کالعدم تصور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے الیکشن میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو بھی ووٹ کا اور اپنے نمائندے کو انتخاب میں کھڑا کرنے کا حق دیا جانا چاہیئے۔ اس موقع پر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے مشیر عارف یوسف نے بتایا کہ حکومت عورتوں کی سیاسی نمائندگی کی خواہاں ہے اور اقلیتوں کی بہتری کیلئے مختلف اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کی تعلیم پر ہماری حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ ان کے اور دوسرے پاکستانی عوام کے درمیان امتیاز کو ختم کیا جاسکے۔ سماجی کارکن عمران ٹکر نے کہا کہ اقلیتوں کیلئے تعلیم و نصاب میں بہتری لانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم و نصاب کا از سرِنو جائزه لیکر اس میں موجود اقلیتوں سے متعلق نفرت انگیز مواد نکالے جائیں اور ان کو بھی اس ملک کے عام شہریوں کی طرح کے حقوق دیئے جائیں۔ انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق مضامین پڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
خبر کا کوڈ : 706936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش