0
Sunday 8 Apr 2018 19:58

پشتونوں کے تمام قاتلوں کا احتساب چاہتے ہیں، منظور پشتین

پشتونوں کے تمام قاتلوں کا احتساب چاہتے ہیں، منظور پشتین
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں آباد پختونوں کے حقوق کیلئے سرگرم تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ ان کی تحریک پشتونوں کے قتل میں ملوث تمام افراد کا احتساب چاہتی ہے، چاہے وہ طالبان ہوں یا فوجی اہلکار۔ اتوار کو پشاور کے رنگ روڈ پر ہونے والے جلسے سے خطاب میں منظور پشتین نے دعوٰی کیا کہ انہیں مزید 2 ہزار کے قریب ایسے افراد کی فہرست موصول ہوئی ہے جنہیں ان کے بقول ریاستی اداروں نے اُٹھایا ہوا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک لگ بھگ ڈھائی ماہ قبل قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں پولیس کے جعلی مقابلے میں ہلاکت کے بعد قائم کی گئی تھی لیکن نسبتاً نوجوان قیادت والی اس تحریک کے کامیاب جلسوں اور مظاہروں نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ تحریک تیزی سے پختون اکثریتی علاقوں میں مقبول ہورہی ہے اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ اتوار کو پشاور میں ہونے والے جلسے میں بھی نوجوانوں اور خواتین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی جبکہ پشاور کے علاوہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع اور قبائلی علاقہ جات سے بھی قافلے جلسے میں شرکت کیلئے پہنچے۔

اپنے خطاب میں منظور پشتین نے اعلان کیا کہ وہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے الزام میں گرفتار پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد اب پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق ترجمان کی عدالت میں پیشی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کے بعد ان کے بقول جنرل پرویز مشرف کی باری ہوگی۔ منظور پشتین نے اعلان کیا کہ وہ 22 اپریل کو لاہور میں جلسہ کریں گے اور اسی مہینے کی 29 تاریخ کو سوات میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ پشاور کے جلسے کیلئے پختون تحفظ موومنٹ کی عوامی رابطہ مہم گذشتہ 2 ہفتے سے جاری تھی جس کیلئے پشاور کے علاوہ مردان، بنوں اور سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں کئی مقامات پر تحریک کے حامیوں نے جلوس نکالے تھے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے مطابق انہوں نے صوبے کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور ڈاکٹروں، وکلاء اور طلبہ تنظیموں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی انجمنوں کے رہنماؤں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی تھی، لیکن کسی بڑی سیاسی جماعت کا کوئی نمایاں رہنما اتوار کے جلسے میں شریک نہیں ہوا۔

جلسے کے مقام پر انتظامیہ نے غیر اعلانیہ طور پر انٹرنیٹ سروسز بند کردی تھیں، جس کے باعث جلسے کی کوریج کرنے والے صحافیوں اور جلسے کے شرکاء کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جلسے کی سوشل میڈیا پر کوریج بھی متاثر رہی۔ جلسے کے شرکاء میں ایک بڑی تعداد لاپتا افراد کے لواحقین کی بھی تھی جنہوں نے اپنے پیاروں کی تصاویر اُٹھائی ہوئی تھیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کے 5 مطالبات ہیں جن میں نقیب اللہ کے قتل میں ملوث ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو سزا دلانا، لاپتہ افراد کی واپسی اور عدالتوں میں پیشی، مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کے کیسز کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کا قیام، قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی اور فوجی چوکیوں پر پشتونوں کی مبینہ تذلیل روکنا شامل ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جلسے میں موجود پی ٹی ایم کی رہنما وڑانگہ وانئی نے کہا کہ 32 ہزار لاپتہ افراد میں سے 250 کو رہا کردینا یا پھر چوکیوں پر ایک گلاس شربت پلانے سے ان کے بقول پشتونوں کی محرومیاں ختم نہیں ہوں گی۔

جلسے میں موجود آل پاکستان سکھ سوسائٹی کے صدر رادیش سنگھ ٹونی کا کہنا تھا کہ ہم پشتون اقلیتوں کو بھی ان کا حق نہیں مل رہا۔ سکھ رہنما نے کہا کہ ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کے مجرموں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ نقیب اللہ محسود کے کراچی میں مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ نے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے فروری میں اسلام آباد میں کامیاب دھرنا دیا تھا، جو کئی روز تک جاری رہا تھا۔ اس دھرنے کے بعد یہ تحریک بلوچستان، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں میں اپنے مطالبات کیلئے احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کا انعقاد کر چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن جیسے جیسے اس تحریک کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس کے خلاف بھی بالخصوص انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے آواز بلند ہورہی ہے۔ کئی افراد اس تحریک پر قوم پرستی کو فروغ دینے اور ملک دشمنوں کے آلہ کار ہونے کا الزام بھی لگا رہے ہیں تاہم تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا موقف ہے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے ان کی تحریک سے خائف ہیں اور اسی لئے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریاست مخالف سرگرمیوں، بغیر اجازت احتجاج اور غداری جیسے الزامات کے تحت مقدمات بھی درج کئے جاچکے ہیں۔ انسانی حقوق کی مؤقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو پشتونوں کے خلاف امتیازی رویے بند کرنے ہوں گے اور اس کا آغاز منظور پشتین اور دیگر مظاہرین کے خلاف قائم فوجداری مقدمات کے خاتمے اور قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور اس میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلانے سے ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 716553
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش