0
Tuesday 10 Apr 2018 12:27

وفاق سے فنڈز کی فراہمی کے سلسلے میں عدالت بلوچستان کی مدد کیلئے تیار ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار

وفاق سے فنڈز کی فراہمی کے سلسلے میں عدالت بلوچستان کی مدد کیلئے تیار ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار
اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بلوچستان میں تعلیم، صحت اور پانی کے مسائل پر ازخود نوٹس کیس کے دوران بلوچستان کے سابق وزرائے اعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ثناءاللہ زہری کو کل عدالت میں طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے عوامی مسائل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چار سال تک بلوچستان میں حکومت کرنے والے بتائیں کہ انہوں نے تعلیم، صحت اور پانی سمیت بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے کیا کیا۔ آئین کے آرٹیکل 184 اور 199 کے تحت عدالت کو بنیادی حقوق کے استحصال پر مداخلت کا حق حاصل ہے۔ بلوچستان کے لوگوں سے ان کا آئینی اور قانونی حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ وکلاء صوبے کے مسائل سے متعلق آئینی درخواستیں عدالت میں لائیں۔ عدالت بلوچستان کے لوگوں کو ان کے جائز حقوق دلانے میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے طلب کرنے پر وزیراعلٰی میر عبدالقدوس بزنجو نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ دو ماہ قبل ہی حکومت ملی ہے۔ وسائل اور وقت کم ہے، پھر بھی بنیادی مسائل پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ازخود نوٹسز کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات نصیب اللہ بازئی، صوبائی سیکرٹری تعلیم نور الحق بلوچ، صوبائی سیکرٹری صحت صالح ناصر، کوئٹہ کے دس سے زائد سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رؤف عطاء، سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر وکلاء کامران مرتضٰی ایڈووکیٹ، نصیب اللہ ترین، ہادی شکیل اور دیگر بھی پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر کہا کہ صوبے کے دس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ کیا اسکول سے باہر لاکھوں بچوں کی تعلیم کیلئے کوئی پالیسی موجود نہیں۔؟ کیا غلطیوں کو درست نہیں کیا جاسکتا۔؟ چیف جسٹس نے کوئٹہ اور بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح ایک ہزار فٹ سے نیچے گرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان سے پوچھا کہ زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔؟ کتنے ڈیمز بنائے گئے ہیں۔؟ بلوچستان اتنا بڑا صوبہ ہے، یہاں اتنے معدنیات اور وسائل بھی ہیں، پھر بھی بلوچستان کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق کی فراہمی کے منصوبوں میں وفاق سے فنڈز کی فراہمی کا کوئی مسئلہ ہے، تو عدالت ہر ممکن مدد کیلئے تیار ہے۔ ہم نے کراچی میں بھی پانی کے مسئلے پر وفاق سے فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ حل کرایا۔ عدالت کے استفسار پر سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ میڈیکل کالج نہیں ہے۔ ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیرانتظام ہے۔ حکومت تین نئے سرکاری میڈیکل کالجز کا جلد آغاز کرنے جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے نجی کالجز سے کیس شروع کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں کیلئے مسائل پیدا نہیں کرنے۔ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ میڈیکل کالجز میں کاروبار تو نہیں چل رہا۔ بچوں سے 20 سے 25 لاکھ روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل کالج کیلئے 8 لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس واپس ریفنڈ کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے، آپ کے ہر مسئلے کو ہم نے فوری حل کیا ہے اور اس میں پانچ منٹ کی تاخیر بھی نہیں کی۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ اس مسئلے کو کل یا پرسوں سنیں گے۔ بار کے مطالبات پر فوری عملدرآمد کیا ہے، اس مسئلے کو بھی جلد حل کردینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ زید ہسپتال کے فنڈز، بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کے ملک کے دیگر میڈیکل کالجوں اور کنٹورنمنٹ بورڈ سے متعلق الگ درخواستیں عدالت میں لائی جائیں۔ چیزیں بلیک اینڈ وائٹ میں پوری تیاری کے ساتھ عدالت میں پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو بلوچستان کے لوگوں کا آئینی اور قانونی حق ہے وہ ان کوئی نہیں چھین سکتا۔ آخر میں چیف جسٹس نے بلوچستان حکومت سے پانی، صحت اور تعلیم کے مسائل پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے بتایا کہ عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق مسائل اور ان کے حل سے متعلق تفصیلی رپورٹ اور پلان عدالت میں پیش کریں کہ مستقبل میں ان مسائل کے حل کیلئے وہ کیا کیا اقدامات کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 716946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش