0
Tuesday 15 May 2018 10:37

شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کیخلاف قبائلیوں کا احتجاج

شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کیخلاف قبائلیوں کا احتجاج
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے کے خلاف قبائلیوں نے احتجاج کیا ہے۔ ایجنسی کے دوسرے بڑے قصبے میر علی میں سیکڑوں قبائلیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے مختلف دیہات اور علاقوں سے تھا جو میر علی کے مرکزی چوک میں جمع ہوئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کے باعث میر علی کے راستے شمالی وزیرستان اور بنوں کے درمیان ٹریفک کی آمدورفت بھی کافی دیر تک معطل رہی۔ احتجاج میں شریک قبائلی رہنما ملک غلام خان داوڑ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان کے لوگوں نے قیامِ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں، مگر گذشتہ چند ہفتوں سے تشدد کے واقعات بالخصوص ٹارگٹ کلنگ نے ایک بار پھر لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہی دن میں 3 افراد کا قتل حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ واضح رہے کہ میر علی تحصیل کے مختلف مقامات پر اتوار کو نامعلوم افراد نے 3 افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں سابق رکنِ قومی اسمبلی اور ایک مذہبی جماعت کے رہنما مولانا محمد دیندار کا بیٹا بھی شامل ہے۔ چند سال قبل انتقال کر جانے والے مولانا دیندار نے سرحد پار افغانستان میں طالبان تحریک کی حمایت کی تھی مگر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے بارے میں انہوں نے کوئی واضح موقف نہیں اپنایا تھا۔ شمالی وزیرستان کی تحصیلوں میر علی اور میران شاہ میں اس سے قبل بھی کئی افراد نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین کا کہنا ہے کہ اگر مرنے والوں کو نامعلوم افراد نے قتل کیا ہے اور وہ بیگناہ تھے تو اس قسم کی پرتشدد کارروائیوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ میاں افتخار حسین نے مزید کہا کہ حکومت بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ فوری طور پر ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام یقینی بنائیں، ورنہ یہ سلسلہ پورے ملک کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ میر علی کے دو مختلف گاؤں میں چند روز قبل نامعلوم عسکریت پسندوں نے خواتین کے دو اسکولوں کو بھی بارودی مواد سے تباہ کر دیا تھا۔ اس دوران اپنے آپ کو مجاہدہن کہلانے والوں نے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط کے ذریعے قبائل کو بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی بھی دھمکی دی تھی۔ تشدد کے ان حالیہ واقعات کے بارے میں ابھی تک شمالی وزیرستان کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کئے جانے والے آپریشن 'ضربِ عضب' کے دوران ایجنسی میں آباد بیشتر قبائل کو غیر مسلح کر دیا گیا تھا، جس پر قبائلی رہنما تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 724806
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش