0
Saturday 19 May 2018 13:17

گیس کی مد میں وفاق بلوچستان کا ایک کھرب 40 ارب روپے کا مقروض ہے، عبدالرحیم زیارتوال

گیس کی مد میں وفاق بلوچستان کا ایک کھرب 40 ارب روپے کا مقروض ہے، عبدالرحیم زیارتوال
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی میں بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارت وال نے کہا ہے کہ پاکستان کو خاص صورتحال کا سامنا ہے۔ ہم اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے ون مین، ون ووٹ کیلئے جدوجہد کی ہے۔ ماضی میں جن لوگوں کے پاس اقتدار رہا، انہوں نے ہمارے موقف کی غلط ترجمانی کی۔ میں آج بھی وزیراعلٰی بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کی مخالفت کرتا ہوں۔ اسکی مخالفت کرنے کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ ہم ریاست اور مملکت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی ہمیں ایسی مخالفت کرنے پر جیلوں میں ڈالا گیا۔ حکومت وقت کی پالیسی پر تنقید اور احتجاج ہمارا حق ہے۔ اسکے یہ معنی نہیں لینے چاہیئے کہ ہم ریاست کے مخالف ہیں۔  آج فوجی جنرل خود کہہ رہے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے محمود خان اچکزئی کو چھ سال روپوش ہونا پڑا۔ میں بجٹ میں خواہ مخواہ کی قانونی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتا۔ ہم نے کسی بھی آمر کی حمایت نہیں کی۔ ہم فوج پر بات نہیں کر رہے۔ فوج کے اقتدار پر قبضے کو ٹھیک نہیں سمجھتے۔ ایجنسیوں کا کام ہے کہ سیاسی حکومت کو معلومات فراہم کرے اور ملک کے فیصلے سیاسی حکومت کریں۔ ہم فوج اورایجنسیوں کے کام سے انکاری نہیں ہیں، لیکن ڈی چوک کے دھرنے میں جمہوریت کے خلاف سازش کی گئی۔ یہ بات آج سب کو معلوم ہوچکی ہے کہ وہ دھرنے کس نے کروائے اور وہ سازشیں آج تک جاری ہیں۔ ملک میں اسوقت اداروں کے درمیان سخت تناو پایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی قدر کو کم کیا جا رہا ہے، ہم اسے کم نہیں ہونے دیں گے۔ پارلیمنٹ کی حیثیت برقرار رہنی چاہیئے۔ الیکشن اور سیاست میں مداخلت اچھی بات نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر اس ٹکراو کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

پاکستان اور اسکی خارجہ پالیسی میں ہماری رائے شامل نہیں ہوتی۔ ہمسایوں کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ کیا ہم چین کی امداد کے بدلے اپنی سرزمین کا اختیار کھو بیٹھیں گے۔؟ ان تمام چیزوں سے نمٹنے کیلئے ہمیں ٹیکنیکل لوگ چاہیئے، تاکہ صوبے اور ملک کے وسائل کو تحفظ دے سکیں۔ پاکستان کو عالمی طور پر تنہائی کا سامنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تمام اختلافات پس پشت ڈال کر مجموعی مسائل کے حل کیلئے اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ مرکز کے ذمے بلوچستان کے ایک کھرب 40 ارب بقایاجات ہیں۔ یہ رقم ملنے شروع ہوئے ہیں، لیکن ہماری معلومات کے مطابق یہ اعداد وشمار ساڑھے چھ کھرب سے زیادہ ہیں۔ ہرنائی سے سالانہ 10 لاکھ ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔ سرکار ہمیں پانچ سو روپے فی ٹن آمدن دیتی ہے۔ مگر یہ آمدن بھی نہیں مل رہی۔ 15 ارب کی آمدن سے صوبے کو کیسے چلایا جاسکتا ہے۔؟ این ایف سی ایوارڈ میں ہمارا حصہ 9 فیصد تو کر دیا گیا، مگر جو پرانا پانچ فیصد حصہ تھا، ہمیں وہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ مرکز سے ہمیں 62 سے 63 ارب روپے ملنے تھے، لیکن 20 فیصد بھی نہیں ملے۔ ہم نے گذشتہ چار سالوں میں ترقیاتی مدات کیلئے بھاری رقم رکھی تھی، لیکن موجودہ حکومت نے آمدنی بڑھانے والے 12 محکموں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ حکومت انصاف کے تقاضوں سے کام لیں، یہ صورتحال کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ہم بھی اپنے ساتھیوں کو 10 سے 15 کروڑ زائد دے دیتے تھے، مگر اربوں روپے میں نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ عوامی امنگوں کے مطابق نہیں۔ اس میں عوامی خزانے کے ساتھ سنگین مذاق ہوا ہے۔ میں اپوزیشن کی طرف سے بجٹ کو مسترد کرتا ہوں اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ بعد میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی محترمہ راحیلہ حمید درانی نے اسمبلی اجلاس ہفتہ کی سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 725731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش