0
Sunday 20 May 2018 23:37

حق واپسی انتفاضہ کے اسٹریٹجک اثرات

حق واپسی انتفاضہ کے اسٹریٹجک اثرات
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

"حق واپسی انتفاضہ" کے مسئلہ فلسطین پر بہت گہرے اور اسٹریٹجک اثرات ہیں اور اسے مقبوضہ فلسطینی سرزمین کی مکمل آزادی کی راہ میں اہم سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اس انتفاضہ کو کچلنے کیلئے پوری طرح طاقت کا استعمال کرنے کے باوجود خود کو ناکام اور شکست خوردہ تصور کر رہی ہے۔ فلسطینی عوام انتہائی پرامن انداز میں اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ جواب میں انہیں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے سیدھی سر اور سینے میں گولیاں ماری جا رہی ہیں۔ اسرائیل آرمی کے ترجمان کی جانب سے اس حقیقت کا اعتراف کہ سویلین افراد کا قتل عام اسرائیل کی ہار ہے، ظاہر کرتا ہے کہ حق واپسی انتفاضہ نے ایک نئی راہ متعارف کروائی ہے اور تل ابیب رژیم کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ حق واپسی انتفاضہ (انتفاضہ العودہ) میں فلسطینی قوم کا موقف انتہائی واضح ہے جس کی آسانی سے مخالفت نہیں کی جا سکتی لہذا یہ فلسطینیوں کے ہاتھ میں ایک موثر ہتھیار جانا جاتا ہے۔ فلسطینی عوام کا موقف ہے کہ "مہاجرین" جن کی تعداد اس وقت 60 لاکھ کے قریب ہے، کو اپنے گھروں اور زمینوں میں واپس آنے کا حق حاصل ہے۔ یاد رہے 12 دسمبر 1948ء سے لے کر 22 دسمبر 2017ء تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بارہا فلسطینیوں کے حق واپسی پر زور دے چکی ہے اور اس بارے میں کئی قراردادیں منظور کر چکی ہے۔

فلسطینیوں کی موجودہ تحریک اس منطق پر استوار ہے کہ فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی میں واحد رکاوٹ غیر قانونی سرحدیں ہیں۔ فلسطینی اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ ان سرحدوں کو توڑ ڈالیں گے۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ، عرب ممالک، اسلامی ممالک اور فلسطینی مہاجرین کے میزبان ممالک میں ان جعلی سرحدوں کو توڑنے کا عزم موجود نہیں تو ہم خود اس حق کو حاصل کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے جسے تمام دنیا والے تسلیم کرتے ہیں۔
 
دوسرا اہم نکتہ جس پر فلسطینی زور دیتے ہیں وہ یہ کہ اسرائیل کی جانب سے 11 سال سے جاری غزہ کا محاصرہ غیر قانونی ہے اور تمام ممالک خاص طور پر مصر جو ہمسایہ ہونے کے ناطے یہ محاصرہ ختم کرنے پر قادر ہے، کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات انجام دیں۔ اس وقت غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ فلسطینی شہری آباد ہیں جو ایک عرصے سے مکمل محاصرے کا شکار ہیں اور کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آخر اس کا جواز کیا ہے؟

گذشتہ گیارہ برس سے یہ محاصرہ ایسی حالت میں جاری ہے جب غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینی شہری اپنی تمام غذائی، ادویات اور دیگر روزمرہ ضروریات میں باہر کے محتاج ہیں۔ اب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس محاصرے کو خود ختم کریں گے جس کے غیر قانونی اور ظالمانہ ہونے کا اعتراف تمام حکومتیں کرتی ہیں۔ فلسطینی عوام کی جانب سے اٹھائے جانے والا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ کس ادارے یا قانون نے اسرائیل کو غزہ کے پٹی اور مغربی کنارے کے اردگرد دیوار تعمیر کرنے اور باہر کی دنیا سے ان کا رابطہ منقطع کر دینے کی اجازت دی ہے؟ فلسطینیوں کا موقف ہے کہ اب وہ ان ظالمانہ دیواروں کو خود گرائیں گے جنہوں نے ان میں اور ان کے عزیز و اقارب میں جدائی اور دوری ڈال رکھی ہے۔
 
گذشتہ سات ہفتوں سے شروع ہونے والے حق واپسی انتفاضہ میں کارفرما فلسطینیوں کی منطق مکمل طور پر انسانی اقدار پر استوار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ہوشیاری پر مبنی ہے۔ اس بنیاد پر اگرچہ فلسطینیوں کے پاس کم اور درمیانی رینج کے میزائلوں سمیت دیگر دفاعی سازوسامان موجود ہے لیکن ان ہفتوں کے دوران وہ اسے بروئے کار نہیں لائے۔ حتی جب اسرائیل نے چند دن پہلے غزہ پر شدید بمباری کی تب بھی فلسطینیوں نے اس کے مقابلے میں کوئی جوابی کاروائی کرنے سے گریز کیا۔

غاصب صہیونی رژیم کے خلاف پرامن احتجاج کے دوران اگرچہ اب تک سو سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں اور فوج اعتبار سے اسرائیل آرمی پر کوئی کاری ضرب نہیں لگائی گئی لیکن حق واپسی اتنفاضہ نے اسرائیل کی طاقت اور سکیورٹی پر کاری ضرب لگائی ہے اور اسرائیل آرمی خود یہ اعتراف کرتی نظر آ رہی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے جال میں پھنس گئی ہے۔ حق واپسی انتفاضہ کے آغاز پر فلسطینی رہنماوں نے اعلان کیا تھا کہ یہ احتجاجی تحریک دس ہفتوں تک یعنی 30 مارچ سے 12 مئی یوم النکبہ تک جاری رہے گی۔ لیکن جب یوم النکبہ کے دن اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے ظالمانہ انداز میں 70 فلسطینیوں کو شہید کر ڈالا تو انہوں نے اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں اس جمعے کے دن بھی یہ مظاہرے پورے زور و شور سے جاری رہے۔
 
اس وقت اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے۔ اس صورت میں نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود اسرائیل آرمی ہی درماندہ ہو کر شدید دباو کا شکار ہو جائے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج بے حاصل ظلم و بربریت کے بعد اس فلسطینی تحریک کے مقابلے میں کچھ حد تک لچک کا مظاہرہ کرے۔

یہ لچک گذشتہ گیارہ برس سے جاری غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ممکن ہے اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کو مقبوضہ فلسطین میں اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کی اجازت دے دے یا گاہے بہ گاہے فلسطینیوں پر انجام پانے والے ہوائی حملے روک دینے کی صورت میں اپنی لچک کا اظہار کرے۔ ایسی صورت میں یہ انتفاضہ ثمر بخش واقع ہو گی اور فلسطینی عوام اسرائیلیوں کو کسی قسم کی مراعات دیئے بغیر اپنے مطالبات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کے بعد فلسطینی اپنے طولانی مدت مطالبات کیلئے جدوجہد کا آغاز کر دیں گے۔
 
2)۔ تقریباً گیارہ برس پہلے، 22 روزہ جنگ کے بعد جب غاصب صہیونی رژیم نے غزہ کے محاصرے کا آغاز کیا تھا تو اسرائیلی حکام یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ غزہ کا محاصرہ حماس کی حکومت کو ایسے حالات سے روبرو کر دے گا جن سے تنگ آ کر وہ ہتھیار پھینکنے اور اسرائیل سے ہمیشہ کیلئے جنگ بندی کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

اسرائیلی حکومت ان سالوں میں یہ توقع کر رہی تھی کہ فلسطینی عوام لمبے عرصے تک محاصرے کا شکار رہنے کے بعد حماس کی حکومت کو دشمن کے مطالبات قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔ لیکن غاصب صہیونی رژیم کی تمام تر توقعات کے برعکس نہ تو فلسطینی جہادی گروہ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوئے اور نہ ہی اسرائیلی فوج کے مقابلے میں مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے سے دستبردار ہوئے۔ دوسری طرف غزہ کے مظلوم فلسطینی شہریوں نے بھی اسرائیلی دباو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی جدوجہد بھرپور انداز میں آگے بڑھانے کا عزم کر رکھا ہے۔
 
غزہ میں مقیم بیس لاکھ کے لگ بھگ فلسطینیوں نے اس بار پہل کرتے ہوئے ایک نیا اقدام شروع کیا ہے۔ ان کا یہ تخلیقی اقدام دشمن کو محاصرے کے خاتمے سے زیادہ اہم اور اسٹریٹجک امر کیلئے دباو کا شکار کرنے پر مبنی ہے۔ اس بنیاد پر "حق واپسی انتفاضہ" تشکیل پایا ہے۔ حق واپسی مارچ کا مقصد "صدی کی ڈیل" نامی بڑی اور منحوس سازش ناکام بنانا ہے۔ اس ڈیل میں اسرائیل اور کئی مغربی اور عرب ممالک شریک ہیں۔

چونکہ اس منحوس سازش میں 12 مئی یوم النکبہ کے دن اسرائیل میں واقع امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے کو ایک کوڈ کے طور پر پیش کیا گیا ہے لہذا فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے بھی اپنی تمام تر توجہ اسی دن پر مرکوز کر دی۔ فلسطینی عوام نے حق واپسی مارچ اور یوم النکبہ انتفاضہ کے دوران عظیم قربانیاں پیش کر کے ڈیل آف دی سینچری نامی منحوس سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور اس سازش میں شامل امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے بعد والے مراحل کو عملی جامہ پہننے سے روک دیا ہے۔
 
3)۔ اب یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال کس مستقبل کی خبر دے رہی ہے؟ موجودہ حالات نے دو چیزیں ثابت کر دی ہیں: ایک یہ کہ فلسطینی عوام مادی مشکلات اور سختیوں کی وجہ سے نہ صرف اسلامی مزاحمت پر دباو نہیں ڈالیں گے بلکہ خود بھی فلسطینی مجاہدین کے شانہ بشانہ ایسے اقدامات میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گے جن کا انجام حتی شہادت کی صورت میں نکل سکتا ہو۔ دوسرا یہ کہ اسرائیل بخوبی آگاہ ہے کہ اسلامی مزاحمت اور اس کے ملٹری ونگز جیسے قدس، قسام، ابو علی مصطفی، شہدائے الاقصی بریگیڈز وغیرہ مختلف قسم کے اسلحے سے لیس ہو چکے ہیں اور عسقلان سے لے کر حیفا تک مقبوضہ فلسطین کے ہر نکتے پر آگ برسانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسی طرح اسرائیلی حکام اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں زیادہ فاصلہ نہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر غزہ کے بیس لاکھ فلسطینی شہری اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کیلئے مغربی کنارے تک کا محدود فاصلہ ایک روزہ مارچ میں طے کرنے کی ٹھان لیں اور دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہ ان کی جان کی حفاظت کیلئے میزائل حملوں کا سہارا لینے کا فیصلہ کر لیں تو اسرائیلی حکام کیا کریں گے؟
 
آج اسرائیل آرمی کا ترجمان یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ وہ جنگ ہار چکے ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی کمانڈرز نے اسے ترجمان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے درست کہا ہے۔ اسرائیل آرمی اس وقت ایک مکمل طور پر نئی صورتحال سے روبرو ہے جو فلسطینی عوام کے تخلیقی اقدام کے باعث معرض وجود میں آئی ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کیلئے بالکل غیر متوقع ہے اور اس نے اس کی روک تھام کیلئے کوئی اسٹریٹجی وضع نہیں کر رکھی۔

30 مارچ سے 12 مئی تک کے انتفاضہ نے یورپی، افریقی اور ایشیائی ممالک کی جانب سے امریکہ کی ہمراہی کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے منصوبے کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ اسی طرح اس انتفاضہ نے امریکہ کے اتحادی عرب ممالک کو بھی شدید دباو کا شکار کر دیا ہے اور عالمی سطح پر بھی فلسطینیوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موصولہ رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی حکام نے فلسطینی رہنماوں کو حق واپسی تحریک ختم کرنے کے عوض غزہ کا محاصرہ مکمل طور پر اور ہمیشہ کیلئے ختم کر دینے کی پیشکش کی ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 726167
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش