0
Monday 4 Jun 2018 23:04

امام خمینی کی نگاہ میں مسئلہ فلسطین اور القدس کا احیاء

امام خمینی کی نگاہ میں مسئلہ فلسطین اور القدس کا احیاء
تحریر: نادر بلوچ

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور امریکی پھٹو رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمے میں امام خمینی نے اہم کردار ادا کیا۔ یوں ایران سے اسرائیل اور امریکی لابی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔ یہ اعزاز بھی امام خمینی (رہ) کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سب سے پہلا اقدام یہ کیا کہ تہران سے اسرائیلی سفارتخانہ کو بند کرکے فلسطین کا سفارتخانہ کھلوا دیا۔ امام خمینی (رہ) نے نہ صرف سفارخانہ کھلوایا بلکہ مسئلہ فلسطین کو ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو بنوا دیا۔ آج انقلاب اسلامی کو 39 سال گزر گئے ہیں، لیکن فلسطین کے معاملے پر ایران کی پالیسی میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آیا۔ امام خمینی نے اس مسئلہ کو زندہ رکھنے کے لئے تمام عالم سے اپیل کی کہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں امام خمینی رضوان اللہ کی اپیل پر رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے تہران میں فلسطین کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب میں انکشاف کیا تھا کہ ہمیں یعنی ایران سے بیک ڈور رابطوں کے ذریعے اسرائیل کی طرف سے کئی بار پیغام بھیجوا گیا کہ اگر آپ لوگ فلسطین کے مسئلے سے ہٹ جائیں تو ایران پر تمام معاشی پابندی ہٹ ختم ہو جائیں گی، دنیا بھر میں ایران تجارتی سرگرمیاں جاری رکھ سکے گا، بند اکاونٹس کو بحال کر دیا جائے گا، لیکن بقول علی اکبر ولایتی کہ ہم نے یہ آفر ٹھکرا دی، کیونکہ ہم اس مسئلہ کو امت مسلمہ کا اہم اور درینہ مسئلہ سمجھتے ہیں، جس پر جمہوری اسلامی ایران کبھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی کبھی کرے گا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے علماء بھی شریک تھے، جنہوں نے بعد میں بندہ حقیر کو علی اکبر ولایتی کے اس خطاب کے اہم نکات سے آگاہ کیا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایران کو مسئلہ فلسطین پر ساتھ دینے پر کڑے امتحان سے گزرنا پڑا ہے۔ جب استعمار کو ایران میں شسکت ہوئی، امریکی پھٹو  حکومت کا خاتمہ ہوا اور اسرائیلی سفارتخانہ بند ہوا تو عالمی دہشتگردوں نے مقامی پٹھو یعنی عراقی صدر صدام حسین کو آگے کر دیا، یوں جمہوری اسلامی ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی، اس جنگ میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے۔ آج بھی اگر ایران جائیں تو فوجی میوزیم بنے ہوئے ہیں، جس میں عراقی فوج کی طرف سے دوران جنگ استعمال کئے جانے والے کیمیکل ہتھیاروں کے ثبوت موجود ہیں۔

بعد میں عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا کہ امریکہ نے صدام حسین کو کیمیکل ہتھیار دیئے تھے۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ جنگ مسلط کرکے ایران کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیں گے اور یوں خطے کے ایک اہم ملک کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانیں گے۔ لیکن یہ امام خمینی کی ہی شخصیت تھی، جنہوں نے جنگ میں مقابلہ بھی کیا اور قوم کو متحدہ رکھا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ نے انتقال سے قبل دو اہم کامیاب کئے، نمبر ایک جمہوری اسلامی کو چلانے کے لئے ادارے فراہم کے، ملک کو آئین دیا اور دوسرا جنگ بندی کرا کر قوم کی درست رہنمائی کی۔ امام راحل نے قدس کے اہم ایشو کو ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون قرار دیا۔ ایران عراق جنگ کے باعث تقریباً اڑھائی لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے، انفراسٹرکچر تباہ ہوا، معیشت برباد ہوئی اور حتیٰ 39 برسوں سے ایران کو  عالمی پابندیوں کا سامنا ہے، یہ عالمی پابندیاں بھی ایران کو مسئلہ فلسطین سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا سکیں۔ وہ جنگ جو دشمن ایران کی سرحدوں کے اندر لے آیا تھا، آج وہ گولان کی پہاڑیوں پہ لڑی جا رہی ہے۔ وہ جنگ جو امریکہ ایران اور عرب جنگ بنانا چاہتا تھا، اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ گو کہ آج چند عرب حکمران امریکہ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، لیکن ایران کی پالیسی نے اس سازش کو ناکام بنایا جائے۔ دشمن نیل کے ساحل سے فرات تک آنا چاہتا تھا، اب اسے اپنی غیر قانونی سرحدوں کے اندر دیواریں بنانا پڑ رہی ہیں۔

امام خمینی نے کہا تھا کہ اگر تمام مسلمان ملکر ایک ایک بالٹی بھی اسرائیل پر پھینکیں تو اسرائیل اس پانی میں بہہ جائے گا۔ دشمن نے ایران عراق جنگ کروانے کے بعد اس جنگ کو کویت، پھر افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور آج یمن میں لے آیا ہے۔ کبھی داعش کی شکل میں پراکسیز لڑوائیں تو کبھی طالبان اور القاعدہ کے نام سے مجاہدین کی پشت پناہی کی، لیکن اپنے مقصد کو نہ پا سکا۔ امام خمینی نے القدس کے بارے میں کہا تھا کہ ’’یوم القدس عالمی دن ہے اور یہ صرف قدس سے متعلق نہیں ہے۔ یہ مستضعفین کا مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے، یہ ان اقوام کے مقابلے کا دن ہے، جو امریکہ اور غیر امریکہ کے ظلم تلے دبی ہوئی تھیں، ایسا دن ہے جب مستضعفین کو چاہئے کہ مستکبرین کے خلاف پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان کو ذلیل و خوار کریں۔ یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے، یہ اسلامی حکومت کا دن ہے۔ ایسا دن ہے، جب سپر طاقتوں کو سمجھانا چاہئے کہ اب اسلامی ممالک میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔"

امام خمینی نے فرمایا کہ ’’میں یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم (ص) کا دن سمجھتا ہوں، ایسا دن ہے، جب ہمیں چاہئے اپنی تمام طاقتوں کو یکجا کریں، مسلمانوں کو اپنے خول سے نکلنا چاہئے اور اپنی تمام طاقت و توانائی کے ساتھ اجانب اور بیگانوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں، یوم القدس ایسا دن ہے، جب تمام سپر طاقتوں کو وارننگ دی جانی چاہئے کہ اب اسلام آپ کے خبیث ہتھکنڈوں کی وجہ سے آپ کے زیر تسلط نہیں آئے گا، یوم القدس، اسلام کی حیات کا دن ہے، یوم القدس ایک اسلامی دن ہے اور یہ ایک عام اسلامی رضاکاروں کا دن ہے۔" امام خمینی نے مزید فرمایا کہ ’’مجھے امید ہے کہ یہ مقدمہ بنے گا ایک “حزب مستضعفین” کے لئے، اگر امت مسلمہ نہ جاگی اور اپنے وظایف سے واقف نہ ہوئی، اگر علمائے اسلام نے ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اٹھ نہ کھڑے ہوئے، اگر واقعی اور اصیل اسلام جو اجانب کے خلاف تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتحاد و تحرک کا باعث ہے اور مسلمان اقوام اور اسلامی ممالک کی سیادت و استقلال کا ضامن ہے، اگر بیگانوں اور اجانب کے عوامل کے ہاتھوں اور سامراجی سیاہ پردوں کے اندر بھڑکنے لگے تو اسلامی سماجوں کے لئے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور برے دنوں کا انتظار کیجئے اور اسلام کی بنیاد اور قرآن کے احکام کو بہت تباہ کن خطرہ لاحق ہے۔ تاکید کے ساتھ مناسب ہے کہ بلکہ واجب ہے کہ شرعی وجوہات کا ایک حصہ جیسے زکواۃ اور دوسرے صدقات کافی مقدار میں ان راہ خدا کے مجاہدوں کے لئے مختص کیا جانا چاہئے، اور اپنے تمام افراد اور امکانات کے ساتھ ان کی مدد کرنا واجب ہے۔"
خبر کا کوڈ : 729595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش