0
Thursday 14 Jun 2018 14:33

پولیس نے ذاتی دھڑے بندی اور اختلافات کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا، راؤ انوار

پولیس نے ذاتی دھڑے بندی اور اختلافات کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا، راؤ انوار
اسلام ٹائمز۔ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوث سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے ذاتی دھڑے بندی کے باعث مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا۔ تفصیلات کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پھٹ پڑے اور پیٹی بھائیوں پر خود کو پھنسانے کا الزام عائد کیا۔ کراچی میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ سابق ایس ایس پی ملیر اور قتل میں نامزد ملزم راؤ انوار سمیت 10 ملزمان کو انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ نقیب اللہ کے والد کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور کی غیر حاضری کی وجہ سے سماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔ سماعت کے بعد احاطہ عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نے کہا کہ پولیس نے ذاتی گروپنگ اور اختلافات کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا، میرے خلاف نقیب اللہ قتل کیس میں شواہد موجود نہیں ہیں، پیشہ ورانہ رقابت کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں، جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر بھی غلط ڈالا گیا، ایسا فون نمبر ڈالا گیا ہے، جو میرے استعمال میں ہی نہیں، 21 مارچ کو میں سپریم کورٹ میں تھا، جبکہ جے آئی ٹی میں جو فون نمبر ڈالا گیا، اس کی لوکیشن کراچی تھی، میرے گھر کو سب جیل قرار دینا بے جا عنایت نہیں ہے، کیونکہ مجھ پر دو خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ راؤ انوار نے مزید کہا کہ ایک شخص نے میرے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی، جسے بعد میں گرفتار کیا گیا، میرے سر کی قیمت مقرر کرنے والے شخص کو چیف جسٹس نے گرفتار کرایا، مجھے ہر تنظیم کے دہشتگرد نے دھمکی دی ہے، مجھے را اور دیگر کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے بھی خطرہ ہے، مجے تھریٹ لیٹر وفاق، صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ سے بھی موصول ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے غلط مقدمے میں نامزد کیا گیا، نہ میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا، نہ مارا، ریکارڈ موجود ہے، میں اس مقدمے میں بری ہو جاؤں گا۔

نقیب اللہ کیس کا پس منظر
13 جنوری 2018ء کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشتگرد نہیں، بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے بے گناہ شہری تھے، جنہیں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی۔ سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ ازخود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور اسلام آباد ایئرپورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی، لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 731649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش