0
Monday 23 May 2011 15:13

اوبامہ کی ذہنی کنفیوژن، طالبان کا پیچھا کرنے کا عزم، دوسری جانب ان کو حکومت میں شامل کرنے کی کوششیں

اوبامہ کی ذہنی کنفیوژن، طالبان کا پیچھا کرنے کا عزم، دوسری جانب ان کو حکومت میں شامل کرنے کی کوششیں
نیویارک:اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر پاکستان میں اسامہ بن جیسے کسی اور القاعدہ یا طالبان لیڈر کا پتہ چلا تو وہ ایبٹ آباد جیسے یکطرفہ آپریشن کا حکم دیں گے، پاکستان کی خودمختاری کی قدر کرتے ہیں، لیکن امریکہ دہشتگردی کے کسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کی اجازت نہیں دے سکتا، بھارت کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا پاکستان کی غلطی ہے، پاکستان پر بھارت کا ہوا سوار ہے، دونوں ممالک کے درمیان امن پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستانی اپنے تھانوں اور عوام کے ہجوم کو دھماکوں سے اڑا دینے اور منتخب نمائندوں کو قتل کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف کاروائی نہیں کریں گے تو انہیں عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا، افغانستان کے مسئلے کو عسکری طور پر حل نہیں کیا جا سکتا، آخرکار طالبان کو بات چیت کے عمل میں شریک کرنا ہو گا، تاہم کسی بھی مفاہمتی بات چیت سے قبل طالبان کو القاعدہ سے اپنے تمام روابط ختم کرنا ہوں گے، تشدد ترک کرنا ہو گا اور انہیں افغان آئین کا احترام کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد امریکہ کو ہر حال میں محفوظ بنانا ہے اور امریکہ دہشتگردی کے کسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ صدر اوباما سے جب پوچھا گیا کہ اگر انہیں پاکستان یا کسی اور خودمختار ملک میں القاعدہ کے اہم رہنما یا طالبان رہنما ملا عمر کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے تو وہ کیا کریں گے، تو امریکی صدر نے کہا کہ میں نے پاکستانیوں پر ہمیشہ یہ واضح کیا ہے اور ہم وہ پہلی امریکی انتظامیہ نہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کام امریکہ کو محفوظ بنانا ہے۔ بلکہ یہ امریکہ کی پالیسی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم کسی کو اپنے یا اپنے اتحادیوں کے شہریوں کو ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کرنے یا ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور پاکستان میں امریکہ کی یکطرفہ کاروائی کے خلاف بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اس سوال پر کہ آیا وہ اب اس بارے میں واضح طور پر جانتے ہیں کہ کس حد تک پاکستانی حکام اور دیگر افراد کو بن لادن کی وہاں موجودگی کا علم تھا، امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے، جو ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ اسے وہاں اندازاً پانچ سے چھ سال رہنے کیلئے کسی قسم کی بیرونی مدد درکار تھی۔ چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری، کوئی بڑا نیٹ ورک یا چند افراد، ان سب کی تحقیقات ہم کر رہے ہیں۔ لیکن ہم پاکستان سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ تحقیقات کرے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس واقعہ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی سمت متعین کرنے کے سلسلے میں رابطے کیے جا رہے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں ان سے رابطے میں ہیں کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ نہ صرف ان تحقیقات میں کہ ایبٹ آباد میں کیا ہوا بلکہ اپنے تعلقات کو اس مضبوط سطح پر لے جانے میں بھی جہاں دہشتگردی کا وہ خطرہ ختم ہونے لگے، جس کا ہدف جتنا پاکستان ہے اتنا ہی امریکہ ہے، اور اس کے لیے تعاون اور اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہو گی۔ 
امریکی صدر نے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم اتحادی قرار دیتے ہوئے کہا: وہ مغرب کو درپیش دہشتگردی کے خطرے کے معاملے میں عموماً ہمارے اہم اور سنجیدہ ساتھی رہے ہیں۔ ہم نے پاکستانی سرزمین پر کسی بھی اور علاقے سے زیادہ دہشتگرد مارے ہیں اور یہ ان کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ لیکن ابھی مزید کام باقی ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ آنے والے مہینوں کے لیے یہ آغاز ہے، جب ہم کچھ زیادہ کارگر اور تعاون پر مبنی تعلقات دیکھنا شروع کریں گے۔ صدر باراک اوباما نے کہا کہ ان کے خیال میں بھارت کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھنا پاکستان کی غلطی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر بھارت کا ہوا سوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسے اپنی بقا کو لاحق خطرہ سمجھتے ہیں اور میرے خیال میں یہ ایک غلطی ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان میں بھارت کو خطرہ تصور کرنے کی سوچ نئی نہیں اور پاکستانی حکام ہر معاملے کا تقابلی جائزہ اس حوالے سے لیتے ہیں کہ بھارت سے ان کے تعلقات پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ یہ ان کی سوچ ہے اور یہ سوچ لمبے عرصے سے موجود ہے۔ اس لیے وہ افغانستان اور فاٹا کے معاملات کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس کا ان کے بھارت سے مقابلے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ باراک اوباما نے کہا کہ ان کے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان امن پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس سے انہیں تجارت کرنے کے لیے وسائل اور قابلیت مل سکے گی اور وہ کہیں آگے جا سکتے ہیں جیسا کہ آپ بھارت کو کرتا دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی اپنے تھانوں اور عوام کے ہجوم کو دھماکوں سے اڑا دینے اور منتخب نمائندوں کو قتل کرنے پر آمادہ ان خطرناک نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے تو انہیں ملک میں عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کو عسکری طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا اور آخرکار طالبان کو بات چیت کے عمل میں شریک کرنا ہو گا۔ باراک اوباما نے کہا کہ اگرچہ کسی سنجیدہ مفاہمت کے لیے ضروری شرائط کے حوالے سے ہماری پالیسی بالکل واضح ہے، لیکن حتمی طور پر اس کا مطلب طالبان سے بات چیت بھی ہے۔ طالبان سے بات چیت کے عمل میں نچلے درجے کے طالبان کمانڈرز سے رابطے ممکن ہیں جبکہ طالبان کی اعلٰی قیادت سے بات چیت کا معاملہ آسان نہیں ہے۔ نچلے درجے کے طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے آخرکار متعدد طالبان کمانڈرز کو صلح میں شامل کیا جا سکتا ہے جو کہ آ کر کہیں گے کہ ہم ہتھیار پھینکنے اور سیاسی عمل میں شامل ہونے کیلئے تیار ہیں۔ اعلی سطح پر یہ معاملہ واضح طور پر زیادہ پیچیدہ ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مفاہمتی بات چیت سے قبل طالبان کو القاعدہ سے اپنے تمام روابط ختم کرنا ہوں گے، تشدد ترک کرنا ہو گا اور انہیں افغان آئین کا احترام کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں سیاسی سمجھوتے کے لیے عسکری لحاظ سے کی گئی کوششوں کا استقبال کریں گے۔ تاہم انٹرویو کے دوران یہ نہیں بتایا کہ کئی لاکھ کلومیٹر دور سے آ کر افغانستان پر قبضہ کرنے والا امریکہ افغانستان و پاکستان کو خود مختار ملک سمجھتا ہے یا پھر امریکہ کی ایک غلام و مقبوضہ کالونی کا درجہ دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 73909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش