0
Sunday 22 Jul 2018 22:33

گلگت بلتستان کو شناخت دینے کی ضرورت ہے، چیف جسٹس

گلگت بلتستان کو شناخت دینے کی ضرورت ہے، چیف جسٹس
 اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے دیامر بھاشا ڈیم کی پذیرائی کی لیکن ساتھ ہی وہ اپنی شناخت کیلئے فکرمند ہیں، ہمیں گلگت بلتستان کی شناخت کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے، کراچی میں ماڑی پور سیوریج واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کے دورے پر گیا تھا جہاں گلگت کے لوگوں نے بھاشا اور دیامر ڈیم کی تعمیر پر بہت خوشی کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی وہ اپنی شناخت کے لئے فکرمند تھے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہمیں ان کی شناخت کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوران خطاب انہوں نے اٹارنی جنرل کو گلگت بلتستان سے متعلق مسئلے کو یاد کرانے کا کہا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں، گلگت بلتستان کے عوام نے دیامر بھاشا ڈیم بنانے کی پذیرائی کی ہے، ہم نے آئندہ نسلوں کو بہتر پاکستان دے کر جانا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ 1 لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ پانی کے معاملے پر کوئی پرسنل ایجنڈا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نے ہمیں گلگت بلتستان میں بہت سے وسائل دیئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں پانی کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ کیا ہم نے ان وسائل کی قدر کی؟۔ گلگت بلتستان کے عوام نے دیامر بھاشا ڈیم بنانے کی پذیرائی کی ہے۔
 
دوسری جانب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایئر سفاری ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد سے اسکردو کے لئے پی آئی اے کرایوں میں بے تحاشا اضافے پر برہم ہوگئے اور پی آئی اے کو اسلام آباد سے سکردو کے کرایوں پر نظرثانی کا حکم دیدیا ہے جبکہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے سی ای او کو طیارے پر مارخور کی تصویر لگانے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، عدالت نے 42 مہمانوں کو ایئر سفاری پر لے جانے پر سی ای او کو کرایہ خود ادا کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پی آئی اے ایئر سفاری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، اس موقع پر سی ای او پی آئی اے عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کل اسلام آباد سے کراچی آتے ہوئے طیارے پر مارخور کا نشان دیکھا، منع کیا تھا کہ مارخور کا نشان ہٹائیں جس پر سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری وجہ سے کون سا کام رکا ہوا ہے جس پر پی آئی اے کے سی ای او نے کہا کہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کتنی تنخواہ لیتے ہیں جس پر پی آئی اے کے سی ای او نے جواب دیا 14 لاکھ روپے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ ایسے افسر کو معطل کرکے دوسرے کو تعینات کردیں، سفارش پر بھرتی ہوکر ایسے کام کرتے ہیں، ان کا معاملہ بھی نیب کو بھجوا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اسلام آباد سے اسکردو کے کرائے اتنے کیوں بڑھا رکھے ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد سے اسکردو کا کرایہ 12 ہزار 300 روپے ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا گلگت بلتستان کے عوام رو رہے ہیں اتنے مہنگے کرایوں سے سیاحت متاثر ہو رہی ہے، اس کرائے پر نظر ثانی کریں۔ چیف جسٹس نے پوچھا بتائیں ایئر سفاری پر کون کون گیا اور اجازت کس نے دی، جس پر پی آئی اے کے سی ای او نے بتایا کہ کل 112 مسافر تھے جن میں 42 مہمان مسافر تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان 42 مہمان مسافروں سے کرایہ لیا گیا تھا جس پر عدالت کو بتایا کہ کرایہ نہیں لیا، چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا 42 مہمان مسافروں کو کس نے منتخب کیا، آپ ان سب 42 مہمان مسافروں کا کرایہ خود بھریں۔
 
خبر کا کوڈ : 739631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش