0
Monday 20 Aug 2018 11:35
افغانستان دوستی اور محبت کا پیغام لیکر جاؤں گا

امریکہ کیساتھ بات چیت دوٹوک اور تعلقات عزت و وقار کی بنیاد پر ہونگے، شاہ محمود قریشی

بھارت کیساتھ بامعنی مذاکرات کی ضرورت ہے
امریکہ کیساتھ بات چیت دوٹوک اور تعلقات عزت و وقار کی بنیاد پر ہونگے، شاہ محمود قریشی
اسلام ٹائمز۔ نو منتخب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اپنا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا کرنا چاہتا ہوں۔ محبت، دوستی اور ایک نئے آغاز کا پیغام لے کر افغانستان جانا چاہتا ہوں۔ افغان عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے۔ اسلام آباد میں نو منتخب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلی پریس کانفنرس کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ہی ختم ہوگی، پاکستان کا مفاد سب سے مقدم ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ازسر نو دیکھا جائے گا، خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 4 سال پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں رہا۔ وزیر خارجہ نہ رہتے ہوئے ایسی طاقتوں کو موقع ملا۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کمزور ہو تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمیں خارجہ پالیسی میں اصلاحی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، خواجہ آصف کو دعوت دوں گا۔ ایم ایم اے کے رہنما کو بھی مدعو کروں گا، چاہوں گا ان سابق وزرائے خارجہ سے مشاورت کروں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خارجہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ کابینہ میٹنگ کے بعد تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کروں گا، تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات میں ان کے تجربہ سے سیکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی بات کی ہے، آج افغان ہم منصب کو ٹیلی فون کروں گا۔ اپنا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا کرنا چاہتا ہوں، افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ محبت، دوستی اور ایک نئے آغاز کا پیغام لے کر افغانستان جانا چاہتا ہوں، افغان عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میرا دوسرا پیغام بھارت کی وزیر خارجہ کے لئے ہے۔ ہم صرف ہمسائے ہی نہیں ایٹمی قوتیں بھی ہیں، ہم دونوں ممالک کے مسائل سے سب واقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مسائل کا حل گفت و شنید کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم ایک دوسرے سے منہ نہیں موڑ سکتے، ہمیں حقائق تسلیم کرنا ہوں گے، کشمیر ایک مسئلہ ہے، ایڈونچر کا کوئی فائدہ نہیں، دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اٹل بہاری واجپائی نے آج نہیں ماضی میں مسائل کو تسلیم کیا۔ واجپائی صاحب کے اسلام آباد مذاکرات تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج پھر کہتا ہوں ہمیں بامعنی مذاکرات کی ضرورت ہے۔ شاہ محمود نے کہا کہ ہم حاکم نہیں خادم ہیں، ہمیں اپنے رویئے تبدیل کرنے ہیں، خدمت کے جذبے سے ہی اقتدار میں آئے ہیں۔ اخلاق سے کبھی نقصان نہیں ہوتا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ خوش دلی سے پیش آنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیلنجز کا احساس ہے، قوم پر مشکل وقت آتے ہیں، خارجی اور داخلی چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عمران خان کے 100 روزہ پروگرام میں میرا چھوٹا سا حصہ ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ احساس ہے وزارت خارجہ میں سلجھے ہوئے بہترین افسران ہیں۔ وزارت خارجہ کے افسران سے ہر قدم پر مشاورت کروں گا۔ ہمارے بہت سے سفارت کار ہیں جو بہترین تجربہ رکھتے ہیں، سابق سفارت کاروں سے بھی مشاورت کا ارادہ رکھتا ہوں۔ شاہ محمود نے بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نے کل خط کے ذریعے عمران خان کو مبارک باد دی، بھارتی وزیراعظم نے گفت و شنید کے راستے کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی ترجیحات اور تشویش سے اچھی طرح آگاہ ہوں، امریکی حکام سے دوٹوک بات کرونگا، تعلقات دو طرفہ اور عزت و احترام کے ساتھ ہوتے ہیں، کس نے کیا کیا اور کیا کردار رہا سب معلوم ہے، پاک امریکا تعلقات میں اعتماد کا فقدان ہے۔
خبر کا کوڈ : 745530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش