0
Monday 20 Aug 2018 15:30

شریف خاندان کی سزا معطلی کی درخواستوں کی سماعت

شریف خاندان کی سزا معطلی کی درخواستوں کی سماعت
اسلام ٹائمز۔ اسلام اباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ  نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی احتساب عدالت سے ملنے والی سزاؤں کی معطلی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع کر دی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ  اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ  کے سامنے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے دلائل دیے۔ اپنے دلائل کے شروع میں نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عدالتی احکامات کے مطابق درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل کا شق وار جواب جمع کرایا ہے۔ سردار مظفر نے کہا کہ ملزمان کی فیصلہ کے خلاف اپیل گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سماعت کے لیے مقرر ہے، انہوں نےکہا کہ اس کیس میں ملزمان کی سزا معطل نہیں کی جا سکتی۔ اپنے دلائل میں  نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ استغاثہ نے دستاویزات کے ذریعے ثابت کیا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔  جس پر جسٹس میاں گل حسن نے سردار مظفر سے کہا کہ اپنے دلائل کو سزا معطلی تک محدود رکھے۔ سردار مظفر نےکہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ملزمان نے اپنی پراپرٹیز مانی ہیں اور یہ فلیٹس جن کمپنیوں کی ملکیت ہیں پراسیکیوشن نے ثابت کیا کہ ان کمپنیوں کی مالک مریم نواز ہے۔

انہوں نے بڑٹش ورجن آئیلینڈ کا ایف آئی اے کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیکر کہا کہ خط میں مریم نواز کو نیلسن اور نیسکو ل کمپنیوں کا بینیفشل مالک قرار دیا گیا ہے۔ اس خط سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ اگر کوئی ٹرسٹ کمپنیوں سے منسلک ہوتا تو اس کا حوالہ ہوتا، ہم نے یہ دستاویزات عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ان کی ہم سے کیا مراد ہے۔؟ کیا یہ دستادیزات نیب نے عدالت میں جمع کرائی ہیں؟ اس پر سردار مظفر نے کہا کہ گواہ  واجد ضیاء نے یہ دستاویزات عدالت میں جمع کرائیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ویسے سردار صاحب، واجد ضیاء آپ نہیں ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید استفسار کیا کہ 2012 میں ان کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے ایم ایل اے کیوں لکھا گیا تھا؟ سردار مظفر نے جواب دیا کہ یہ کسی خاص کیس کے لیے نہیں بلکہ معمول کے مطابق لکھا گیا تھا۔ عدالت کے سامنے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے دلائل جاری ہیں۔

گزشتہ سماعت کے دوران جب  نیب پراسیکوٹر نے  ایک مرتبہ پھر عدالت سے سماعت دو روز کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی تو جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ ‘کیا یہ اچھی روایت ہے کہ ایک طرف دلائل مکمل ہو جائیں تو دوسری طرف سے وقت مانگا جارہا ہو، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں یہ ہدایات ملی ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ یہ چالاکی پر مبنی ہدایات ہیں جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے ہدایات دیں، کیا چیئرمین نیب نے یہ ہدایت دیں جس پر سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ انہیں پراسیکیوٹر جنرل نے ہدایات دی ہیں۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے التواء پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، ایک ماہ سے درخواست زیر التواء ہے، جس پر سردار مظفر عباسی اور خواجہ حارث کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ بات نہ کریں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں، کیوں بات نہ کروں۔ اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ انہیں پراسیکیوٹر جنرل نیب سے ہدایات لینی ہیں، تحریری کمنٹس داخل کرانے کے لیے مہلت دی جائے۔ اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر شائستہ اور خلاف روایت ہے، پہلے ریفرنس ٹرانسفر کیس سنا، اس وقت کوئی اعتراض نہیں آیا اور فیصلہ میرٹ پر آیا، کیس پر دلائل شروع کردیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ  عدالت کی کارروائی ہم نے ریگولیٹ کرنی ہے اور ہمارے سامنے سب فریق برابر ہیں۔ اس موقع پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز  نے نیب کی جانب سے التوا کی درخواست پر کہا تھا کہ پرائیویٹ پارٹیاں ایسا کرتی ہیں لیکن ادارہ ایسا کرے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگرچہ عدالت نے بعد میں نیب پراسیکوٹر کی درخواست منظور کی تھی تاہم عیر ضروری التوی مانگنے پر نیب پر 10 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔ اسلام اباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم پر دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں نواز شریف کو دس سال قید اور دس ملین پونڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس کیس میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال قید اور 2.6 ملین پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی ہوئی تھی جب کہ مریم کے شوہر کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی  تھی۔ تینوں اس وقت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید کاٹ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور ان کی صاحبزادی و داماد نے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 745578
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش