0
Sunday 9 Sep 2018 16:46

سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، ثناء بلوچ

سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، ثناء بلوچ
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی وسابق سینیٹر ثناء بلوچ نے کہا ہے کہ سی پیک سے متعلق بلوچستان کے حقوق پر سابقہ حکمرانوں نے تاریخی غفلت کی ہے، جس کے باعث آج ہم بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز کو مدلل انداز میں اٹھانے کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ لوگوں کے خیالات ان کے منہ میں دبانے کی کوشش کروگے تو کل وہ بندوق کی شکل میں باہر نکلے گے۔ ہمیں لوگوں کے خیالات کو ان کے منہ سے نکلنے دینا چاہیئے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بہتر انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ یہاں 8 لاکھ نوجوان بے روزگار، 25 لاکھ بچے تعلیم سے محروم، 66 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار، 72 فیصد لوگ پانی کی سہولت اور 58 فیصد لوگ بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں ایس پی ڈی ایف کے زیراہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ انسان کے ذہن میں امن سکون کا نام ہے ۔ ،ریاست اگر ایک فرد کو تعلیم، صحت، پانی، توانائی، امن وامان ودیگر سہولیات دیں تو یہ بھی امن ہی ہے۔ جب بلوچستان میں حالات خراب تھے، ہم باہر تھے۔ جہاں میں نے اقوام متحدہ میں وومن ڈویلپمنٹ ودیگر پر کام کیا۔ وہاں دیکھا تو بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے کہا کہ امن کے فلسفے بنانے میں وقت لگتا ہے۔ افسوس ہے کہ آج 8 لاکھ نوجوان بے روزگار، 25 لاکھ بچے تعلیم سے محروم جبکہ 66 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہے۔ پہلے بھی ہم کہتے رہے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اور آج بھی کہتے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔

سی پیک ایک سڑک کا نام نہیں، بلکہ ایک آئیڈیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سی پیک نہیں بنانی چاہیئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں امن، تعلیم، صحت اور توانائی کا بھی کوریڈور بنائی جائے۔ ہم قرون وسطہ کے دور کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 16ویں صدی میں لوگ جنہیں بجلی کا نہیں پتا، بلوچستان کے آدھے سے زیادہ وہی زندگی گزار رہے ہیں، جو 16ویں صدی میں رہ رہے تھے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں تک یہ سہولیات پہنچائیں، تاکہ وہ بھی جدید طرز زندگی گزار سکے اور سہولیات سے مستفید ہو۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ بلوچستان کی ایک ایسی نسل تیار کریں، جو بلوچستان کی بات کو مدلل انداز میں حکام بالا تک پہنچا سکیں، مگر افسوس آج بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز کو مدلل انداز میں اٹھانے کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ 12 سو کلو میٹر طویل بارڈر شیئر کررہے ہیں، پاکستان، ایران اور افغانستان آپس میں بھی سی پیک بنا سکتے ہیں۔ جب ہم نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کیا تو ان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ سی پیک پر دوبارہ بات کریں۔ ہمارے سابقہ حکمرانوں نے سی پیک پر بات کرنے میں تاریخی غفلت کی ہے۔

کوئی ہمارے روزگار نہیں دے گا، بلکہ ہمیں روزگار کے مواقع خود پیدا کرنے ہونگے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے ایک پروگرام شروع کیا ہے، جبکہ بلوچستان میں ریٹائرڈ ہونے والے افسران جنہیں میں ریٹائرڈ نہیں، بلکہ ایکسپرٹ کہوں گا، ان کیلئے بھی ایک پروگرام شروع کرینگے، تاکہ وہ ہمیں تربیت دیں سکے۔ میرے ایک دوست نے کہا کہ وہ یونیورسٹی کا نام صمد خان یا چاکر خان رکھ رہے ہیں تو میں نے کہا کہ آج بلوچستان میں 66 فیصد صمد خان، چاکر خان اور اکبر خان گلی کوچوں میں غذائی قلت کا شکار ہے۔ ہمیں ان صمد خان، چاکر خان اور اکبر خان کا سوچنا چاہیئے، جن کے نام پر آج ہم پارلیمنٹ میں موجود ہے۔
خبر کا کوڈ : 749026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش