0
Friday 14 Sep 2018 08:20

امریکا کا افغانستان میں فوجی ا ڈے رکھنے پر اصرار

امریکا کا افغانستان میں فوجی ا ڈے رکھنے پر اصرار
اسلام ٹائمز۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان کے سیاسی تصفیے کیلئے بامعنی مذاکرات کا عمل امریکا کے اس اصرار پر تعطل کا شکار ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے دو فوجی اڈے برقرار رکھے گا، اس بات کا انکشاف سابق طالبان اہلکار وحید مزدہ نے کیا ہے جو مسلسل طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ امریکی میڈیا کےمطابق وحید کا کہنا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ طالبان کم سے کم بگرام اور شورابک میں موجود 2 امریکی اڈوں کی موجودگی برقرار رکھنے کو تسلیم کر لیں لیکن طالبان یہ شرط تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وحید مزدہ کا کہنا ہے کہ طالبان لیڈر امریکی فوجیوں کی محض علامتی موجودگی سے زیادہ کچھ بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جو امریکا کے سفارتی مشن کیلئے ضروری ہو۔ واشنگٹن میں اعلیٰ سطحی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکا‘ کو بتایا کہ افغانستان میں بعض فوجی اڈوں کی موجودگی امریکا کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل اور پنٹاگان کے سابق مشیر کرسٹوفر کولینڈا اس سال دوحہ میں منعقد ہونے والے طالبان کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات میں شریک تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کو قابض فوج سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں۔ کرسٹوفر کولینڈا نے ’وائس آف امریکا‘ کو بتایا کہ طالبان امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کو وہاں جاری لڑائی کی اہم وجہ سمجھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی قسم کے امن سمجھوتے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجی حرکت کرتے دکھائی دیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے اس بات پر کسی قدر آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ افغان فوجیوں کی تربیت کیلئے کچھ غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں، تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ ایسا صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب افغانستان میں پرامن سمجھوتے کے بعد نئی حکومت تشکیل پائے جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔

دوحہ میں کولینڈا اور امریکی سفارتکار روبن رافیل نے طالبان سے غیر رسمی مذاکرات کئے جن کے بعد جنوبی اور وسطی ایشیا کیلئے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے جولائی میں دوحہ میں ہی طالبان سے ملاقات کی۔ اس بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ یہ ملاقات طالبان کی طرف سے افغان حکومت کے بجائے امریکہ سے براہ راست بات چیت کی خواہش پر منعقد ہوئی۔ طالبان افغان حکومت کو امریکا کی ’کٹھ پتلی‘ حکومت تصور کرتے ہیں۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور کیلئے 3یا 4رکنی وفد تشکیل دینے پر کام شروع کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 749948
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش