0
Tuesday 18 Sep 2018 12:13

سی ٹی ڈی کا افغانستان سے تحریک طالبان اور حزب الاحرار کے چلائے جانیوالے نیٹ ورک کو غیر فعال کرنے کا دعویٰ

سی ٹی ڈی کا افغانستان سے تحریک طالبان اور حزب الاحرار کے چلائے جانیوالے نیٹ ورک کو غیر فعال کرنے کا دعویٰ
اسلام ٹائمز۔ انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ پنجاب نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حزب الاحرار کے نیٹ ورک کو غیر فعال کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب سیکیورٹی اداروں نے خفیہ ایجنسی کی بس پر خودکش حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے راولپنڈی کو بڑے حادثے سے بچا لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی گزشتہ 4 ماہ سے زائد عرصے سے نیٹ ورک کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہا تھا، لیکن اس دوران دہشت گرد شہریوں اور سیکیورٹی اداروں پر 2 حملے کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حکام نے کہا ہے کہ یہ سی ٹی ڈی کی تاریخ میں سب سے بڑا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (IBO) تھا، جو کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ مذکورہ کاروائی میں سی ٹی ڈی راولپنڈی کی ٹیم نے خودکش حملہ آور رضوان اللہ سمیت 5 دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے اٹک میں این ڈی سی (نیشنل ڈیفنس کمپلیکس) کے انجینئرز پر حملے کے بعد سی ٹی ڈی نے رواں برس 3 مئی سے کالعدم تنظیم کی نقل و حرکت کی نگرانی شروع کی تھی۔ سی ٹی ڈی نے این ڈی سی حملہ کیس کی تحقیقات شروع کی اور اس ضمن میں اہم شواہد بھی اکٹھے کیے۔

حکام کے مطابق این ڈی سی پر حملے کے شواہد سے نیٹ ورک کے ملوث ہونے کا علم ہوا، تو اسی دوران انہوں نے نوشہرہ میں 17 مئی کو ایف سی اہلکاروں پر ایک اور خودکش حملہ کیا۔ حملے میں ایف سی اہلکاروں کے علاوہ شہری بھی جاں بحق ہوئے اور نوشہرہ حملے میں بھی اسی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔ ان واقعات کے بعد سی ٹی ڈی نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور افغانستان تک پھیلے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے لیے کام شروع کیا۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ مشتبہ افراد ٹرک میں بیٹھ کر راولپنڈی میں داخل ہو کر پاکستانی خفیہ اداروں کی بس کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں کے قبضے سے 2 خودکش جیکٹس، 4 دستی بم، دھماکا خیز مواد، تاریں، 4 پستول اور متعدد گولیاں بھی برآمد کی گئیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ خفیہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ افراد نئی دہشت گرد تنظیم حزب الاحرار سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہمند ایجنسی میں جماعت الاحرار کے چیف عمر خالد خراسانی سے اختلاف کے بعد مکرم شاہ مہمند نے علیحدہ گروپ بنا لیا تھا۔

مہمند ایجنسی کا رہائشی عمران خراسانی عرف طاہر حزب الاحرار کا اہم کمانڈر بن کر ابھرا تھا۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ عمران نے افغانستان سے بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کی۔ عمران نے مہمند ایجنسی کے مستقل رہائشی شیر حسن کو حملے کے لیے منتخب کیا، جو اس وقت دارالاسلام کالونی (اٹک) میں عارضی رہائش اختیار کیے ہوئے تھا اور اس نے ہی این ڈی ایس ملازمین کے بس کی نشاندہی کی۔ شیر حسن نے بس کی ویڈیو بنا کر عمران خراسانی کو افغانستان ارسال کی۔ اس کے بعد افغانستان سے خودکش جیکٹس 14 اپریل کو بذریعہ ٹرک اٹک روانہ کی گئیں، ٹرک کا مالک ملک جان اور اس کا بھائی کامل تھا۔ شیر حسن نے اپنی ساتھی محمد کے ہمراہ جیکٹس وصول کیں اور اسے پہلے ثناء اللہ کے گھر رکھا اور اگلے ہی دن عدنان کے گھر منتقل کردیا۔ تین دن بعد حملے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس مقصد کے لیے محمد خودکش حملے کے لیے خالد عرف صدام کو اٹک لے کر آیا۔

حکام کے مطابق خود کش حملہ آوار افغانستان سے طورخم بارڈر کے راستے سے داخل ہوا اور عدنان کے گھر رہائش اختیار کی۔ 2 مئی کو تمام دہشت گردوں نے این ڈی ایس کی بس کی نگرانی کی اور اگلے دن شیر حسن اور محمد نے صدام کو خودکش جیکٹ پہنائی۔ انہوں نے صدام کو دستی بم اور پستول بھی فراہم کی اور خودکش جیکٹ پر محمد بن قاسم تحریر کیا اور بعد ازاں صدام کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اس طرح صدام حملہ کرنے میں کامیاب رہا اور بعد ازاں دوسرے حملے کے لیے طورخم سے ایک اور خود ش حملہ آور قاری عثمان داخل ہوا۔ شیر حسن، قاری عثمان کو نوشہرہ لے گیا اور ایک مسجد میں رہائش کرائی اور 17 مئی کو ایف سی اہلکاروں پر حملہ کیا۔ تاہم سی ٹی ڈی نے خفیہ ایجنسی کے افسران کی بس پر حملے کی تیاری کرتے وقت دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق رضوان اللہ افغانستان سے آیا تھا جو راولپنڈی آنے سے قبل پشاور کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔
خبر کا کوڈ : 750805
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش