0
Sunday 7 Oct 2018 17:38

ایرانی سفیر کا دورہ کوئٹہ اور گوادر آئل ریفائنری کا منصوبہ!

ایرانی سفیر کا دورہ کوئٹہ اور گوادر آئل ریفائنری کا منصوبہ!
رپورٹ: نوید حیدر

2 اکتوبر 2018ء کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست تشریف لائے، اسی دن دوسری جانب سعودی عرب کے مشیر برائے توانائی احمد حمد الحامدی بھی اپنے 6 رکنی وفد کے ہمراہ گوادر پہنچے۔ میڈیا کے بعض حلقوں نے ایرانی سفیر کے اس دورے کو سعودی مشیر کی بلوچستان میں موجودگی کو کاؤنٹر کرنے کے مترادف قرار دینے کی کوشش کی، لیکن ان کی تمام تر کوششیں اس وقت ناکام ہوگئی جب اپنے دورے کے آخری روز پریس کانفرنس کے دوران ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے گوادر میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کو خوش آئند قرار دیا اور اس تاثر کو مکمل رد کر دیا کہ ایران گوادر میں سعودی سرمایہ کاری کیخلاف ہے۔ پاکستان میں متعین ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست تین روزہ دورے کیلئے جب کوئٹہ پہنچے تو اسی روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اسلامی دنیا میں موجودہ حالات اور ناخوشگوار صورتحال کے پیچھے عالمی سامراج کا ہاتھ ہے۔ اس وقت ایران عالمی سامراج کے مقابلے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ آزادی اور استقلال کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ عالمی سامراج مختلف حوالوں سے ہم پر حملہ آور ہے۔ دشمنوں نے چار دہائیوں سے ایران کے خلاف ہر طرح کی سازشیں کی ہیں، جن میں عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ، اقتصادی پابندیاں اور دہشتگردی کے واقعات شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی ایرانی قوم اور اس کے قائدین انقلاب اسلامی ایران کے بنیادی اصولوں پر سختی سے کاربند ہیں۔ ہم تیسری قوت کے منتظر نہیں، بلکہ ایران اپنے معاملات اپنے ہمسائیوں کے ساتھ مل کر بہتر بنائے گا۔ گذشتہ چار ماہ کے دوران پاک ایران دو طرفہ تجارت میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے، بلکہ دو طرفہ تعاون کے ذریعے اس میں مزید بہتری لائی جائے گی۔"

اگلے روز کوئٹہ چیمبر آف کامرس میں اجلاس کا انعقاد ہوا، جس میں وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال اور ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر محمد ایوب خلجی نے کہا کہ گوادر سی پیک منصوبے کا محور ہے، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور گوادر چیمبر کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ انہوں نے اقتصادی راہداری کیساتھ ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اور ڈیوٹی فری فیکٹریز کا مطالبہ کیا۔ اس سے نہ صرف ہماری اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچیں گی، بلکہ ملک اور صوبے کو بیش بہا زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعلٰی بلوچستان حب میں کوئٹہ چیمبر کے ممبران کو ایکسپورٹ پروسسنگ زون کیلئے پانچ ہزار فٹ اراضی کی الاٹمنٹ، اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے مختلف محکموں کے افسروں اور چیمبر کے اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے، ایکسپورٹ ٹریننگ اور ڈسپلے سینٹر کے قیام کیلئے سابقہ وزیراعلٰی کیجانب سے اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق اعلان پر عملدرآمد، ایران کیساتھ بینکنگ سسٹم یا بارڈر سسٹم کی بحالی، ایران اور افغانستان کیلئے امپورٹ پر کسٹم ویلیو کا اختیار کراچی کسٹم کلٹریٹ کی بجائے کوئٹہ کسٹم کلٹریٹ کو منتقل کرنے، صوبے کے تجارت سے وابستہ افراد کو انڈسٹریل پلاٹوں کی الاٹمنٹ، کوئٹہ انڈسٹریل اسٹیٹ فیز 4 کو اسپیشل اکنامک زون ڈکلیئر کرنے اور اس مد میں مختص فنڈز کو بروئے کار لانے کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعلٰی بلوچستان کا کہنا تھا کہ "کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اس کی معیشت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ صنعتی و تجارتی ترقی کیلئے ہمیں اپنے مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا۔ صوبے میں صنعت وتجارت کا شعبہ ترقی کرے گا تو اس سے ہر فرد بلواسطہ یا بلاواسطہ مستفید ہوگا۔ صنعت و تجارت کی ابتر صورتحال ماضی کی غلط پالیسیوں کی بدولت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بلوچستان میں ایمپورٹ اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کو ترجیح نہیں دی گئی۔ بیرونی سرمایہ کار بھی پرائیوٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری نہیں کر پا رہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کی حالت زار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ بیرونی سرمایہ کار پہلے رابطہ کرتے ہیں اور انہی کی بدولت انہیں بلوچستان میں موجود مواقعوں سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ ہمیں اس وقت لوکل اکنامک سائیکل ری وائیول کی ضرورت ہے۔ ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کی موجودگی میں کوئٹہ چیمبر میں میری پہلی مرتبہ آمد قابل مسرت ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ ہماری سینکڑوں کلو میٹر طویل سرحد ہے، اس لئے ضروری ہے کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کی ترقی کیلئے بارڈر پر مختلف علاقوں میں مزید تجارتی گیٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔" آخر میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے اپنے خطاب میں کہا کہ " پاک ایران دو طرفہ تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک پہنچانے کے لئے دونوں ممالک کے تاجر برادری اور بزنس کمیونٹی کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ پاکستان کے دیگر صوبے بھی بلوچستان کے راستے تجارت کو فروغ دیں، تاکہ اس گیٹ وے کو مزید مضبوط بنایا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "دہشتگردی سمیت تمام معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بینکنگ سسٹم کے حوالے سے تمام فیصلے اور امور مکمل ہو چکے ہیں، جس پر عملدرآمد کو یقینی بناکر تاجروں کو درپیش مشکلات سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ انفرادی نوعیت کی بجائے اجتماعی نوعیت کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرکے دونوں ممالک خطے میں مضبوط تجارت کو فروغ دیکر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں، جس کیلئے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امپورٹ، ایکسپورٹ کو مزید مستحکم اور فعال بنانے کے لئے بینکنگ کے نظام کے لئے جو دونوں ممالک نے قانونی طریقے سے اقدامات اٹھائے ہیں، انہیں عملی جامہ پہنا کر تاجروں کو درپیش مسائل اور مشکلات سے نجات دلائیں۔ تاکہ وہ تجارت کے لئے اپنے پیسے کی آمدورفت کو ان بینکوں کے ذریعے یقینی بنائیں، تاکہ غیر قانونی طریقے سے پیسوں کے لین دین کا راستہ بھی بند ہو سکے۔" دوسری جانب گوادر میں سعودی عرب کے وفد کے دورے کے موقع پر بریفنگ کے دوران چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی نے کہا کہ " گوادر میں سی پیک پراجیکٹ کے تحت 80 ہزار ایکڑ پر میگا آئل سٹی تعمیر کیا جائیگا، جس کے ذریعے گوادر سے چین تک درآمد شدہ تیل بجھوایا جائیگا۔ یہ تیل خلیجی ممالک سے درآمد کیا جائیگا اور گوادر آئل سٹی میں ذخیرہ کیا جائیگا۔" سعودی وفد نے گوادر میں سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی اور یہاں دستیاب سہولتوں اور سکیورٹی کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا اور پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

اس کے ایک دن بعد 4 اکتوبر کو وفاقی کابینہ نے گوادر میں سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی منظوری دیدی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل غلام سرور خان نے بتایا کہ "گوادر میں آئل ریفائنری سے متعلق سعودی کمپنی آرمکو اور پاکستانی کمپنی پی ایس او کے مابین معاہدہ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بلوچستان حکومت کو بھی آن بورڈ لیا جائے گا۔ ہمیں 5 ریفائنریز کی ضرورت ہے، جبکہ 10 بلاکس کی اوپن آکشن کریں گے۔" اسی روز 4 اکتوبر کو ہی ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "دنیا جان چکی ہے کہ ترقی کا راستہ جنگ نہیں، باہمی روابط ہیں۔ پاکستان اور ایران کو اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ ایران بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کرتا رہے گا اور ہمیں داعش جیسی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس میں سعودی شراکت داری پر ایران کو کوئی اعتراض نہیں۔" میڈیا رپورٹس کے مطابق اس منصوبے پر قریب آٹھ ارب امریکی ڈالرز کے برابر لاگت آئے گی، جوکہ دنیا کی تیسری بڑی آئل ریفائنری ہوگی۔ 6 اکتوبر کو اسلام آباد میں جرمن اتحاد کے دن سفارتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر یاؤ جنگ نے کہا کہ "چین کو سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں، سی پیک دونوں ممالک کیلئے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔" سی پیک آنے والے دنوں میں یقیناً بین الاقوامی سطح پر انتہائی اہمیت اختیار کرے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنے اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط بنا سکتا ہے، بلکہ خطے میں موجود دیگر ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاکر باہمی تعاون کو بھی فروغ دے پائے گا۔
خبر کا کوڈ : 754441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش