0
Saturday 13 Oct 2018 12:36

ججز کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ وہ آنیوالی نسل کو کیا دے رہے ہیں، چیف جسٹس

ججز کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ وہ آنیوالی نسل کو کیا دے رہے ہیں، چیف جسٹس
اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مقدمات کو نمٹانے میں تاخیر ایک ناسور بن چکا ہے اور ملک میں ججز سب سے زیادہ تنخواہیں لیتے ہیں جبکہ ان پر یومیہ 55 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے ججز کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ججز سمجھتے ہیں کہ وہ روزانہ 55 ہزار روپے والا جتنا کام کرتے ہیں؟ لاہور میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا لیکن جہاں بے انصافی کا عروج وہاں معاشرے کی بنیادیں کھڑی نہیں رہ سکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا رحمتے کا کردار وہ ہے، جو ایک معاشرے میں منصف کا کردار ہے، جس کے پاس لوگ جاکر اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں اور بابا رحمتے اپنی ذہانت اور ایمانداری سے فیصلہ کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے متعدد مثالیں پیش کیں جس میں مقدمات میں غیر ضروری طوالت اختیار کی گئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جس نظام کے خدوخال جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہوں گے تو وہاں کیا کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوانین کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 61 برس تک انصاف کی متلاشی خاتون کو ہم نے 15 دن میں انصاف دیا جب جج ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بار عدلیہ کا لازم و ملزوم حصہ ہے، ججز جتنی تنخواہ لیتے ہیں اتنا کام بھی کریں لیکن افسوس کہ کئی کئی دن مقدمات کی شنوائی نہیں کی جاتی کیا یہ ناانصافی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ وہ آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی جانب سے ایک ہسپتال کے یونٹ کو ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے فراہم کئے جا رہے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے رقم فراہم نہیں کی جارہی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک فلاحی ریاست کا حق نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق اور سہولیات فراہم کرے۔ چیف جسٹس نے ملک میں درجہ بندی پر مبنی نظام تعلیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غربت میں جنم لینے والے بچے کو تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قوانین کا تحفظ صرف عدلیہ کی ذمہ داری نہیں بلکہ شہریوں کو بھی چاہیئے کہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔ انکا کہنا تھا کہ جبتک ہم قوانین کو سادہ اور عام فہم نہیں بنائینگے تب تک بروقت انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ منشا بم جیسے لوگ آپ کی اراضی پر قبضہ کر لیتے ہیں کیا یہ پاکستان کے انسانی حقوق کے خلاف ورزی نہیں؟ چیف جسٹس ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سمیت ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور چاروں صوبوں کے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے حکام سے لاپتہ افراد سے متعلق دریافت کیا لیکن انہوں نے مثبت جواب نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں نے جواب دیا کہ ان کے پاس کوئی شخص زیر حراست نہیں، جس پر میں نے ان سے حلف نامہ طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ نے جو کچھ کیا وہ انسانی ہمدردی اور بنیادی حقوق کے خاطر کیا اور اسی وجہ سے لاپتہ افراد کے لئے ایک بینچ مختص کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ انسان کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں جس کی پاسداری نظر نہیں آرہی، ایک ڈاکٹر گذشتہ کئے برسوں سے اپنے بیٹے کی تلاش میں مصروف ہے لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بطور جج ہماری ذمہ داری قانون کی ترجمانی ہوتی ہے اور ترجمانی کے دوران ہی ہم مزید قانون کی تشریح کر سکتے ہیں لیکن ہم قانون سازوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ قوانین کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا اگر یہ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ہمارے نا انصافی پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ اپنی نسل کو اس دور میں چھوڑیں جہاں انصاف بروقت نہ ملے سکے۔ دوران خطاب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جعلی گواہوں اور دستخط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جعلی دستخط کرنا کوئی مشکل عمل نہیں ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے باقاعدہ جعلی دستخط کا طریقہ بھی بتایا کہ ایک چراغ کے اوپر شیشہ رکھیں پھر اصلی دستخط والا پیپر رکھیں اور پھر کسی بھی صحفے پر اس کو ٹریس کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں متعدد ایسی ٹیکنالوجیز موجود ہیں جس کے ذریعے جعلی اور اصلی کاغذات کی شناخت باآسانی ہو سکتی ہے لیکن ججز اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان کسی نے خیرات میں نہیں دیا بلکہ اس کے پس منظر میں ایک مربوط تحریک ہے اور اس تحریک کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں کنیز بی بی کئی سال رہی کیوں کہ اس کے گھر سارے لوگ شہید ہو گئے تھے، کیا ہم اس ملک کی قدر کر رہے ہیں.؟ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر جج نہ ہوتا تو شاید چھوٹا موٹا کلرک ہوتا ہے۔ اپنے ماضی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں بار کا سب سے پرانا اور قدیم ممبر ہوں، میں بار میں 7 سال کی عمر سے آ رہا ہوں اور اپنے والد کے ساتھ اسکول سے سیدھا عدالت آتا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سول مقدمات کی حد تک اے ڈی آر سسٹم بہت اچھا ہے جسے سلیبس کا حصہ بنانا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سسٹم کو خود پیچیدہ کر دیا ہے اور ہمیں ہی نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے دور میں نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 755541
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش