0
Monday 29 Oct 2018 19:46

سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جائے، گلگت بلتستان اسمبلی میں 2 قراردادیں منظور

سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جائے، گلگت بلتستان اسمبلی میں 2 قراردادیں منظور
اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے دو ایک جیسی قراردادوں کی بھاری اکثریت سے منظوری دی ہے، جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر من و عن عمل کرکے گلگت بلتستان کیلئے آئینی اصلاحات کا اعلان کیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کا یہ مقتدر ایوان آئینی حقوق کے حوالے سے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان سفارشات میں نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کی ترجمانی کی گئی ہے بلکہ گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور کردہ قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ وفاقی حکومت نے مذکورہ سفارشات پر عمل کرنے کی بجائے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کی شکل میں جو حکم نامہ جاری کیا ہے، وہ عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کمیٹی نے گلگت بلتستان کے عوام کو آئین پاکستان میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی، سینیٹ اور تمام مالیاتی اداروں میں نمائندگی دینے کی سفارش کی تھی۔ لہٰذا یہ مقتدر ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ سرتاج عزز کی سربراہی میں آئینی کمیٹی کے مرتب کر دہ سفارشات کے تحت گلگت بلتستان کیلئے آئینی اصلاحات کا اعلان کیا جائے۔

قائد حزب اختلاف کیپٹن (ر) شفیع خان میجر (ر) محمد امین اور جاوید حسین کی یہ مشترکہ قرارداد میجر (ر) محمد امین نے ایوان میں پیش کی وزیر قانون اورنگ زیب ایڈووکیٹ اور سینیئر وزیر حاجی اکبر تابان کی مشترکہ قرارداد جسے وزیر قانون اورنگ زیب ایڈووکیٹ نے ایوان میں پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کا یہ مقتدر ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جانب سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے اصلاحاتی کمیٹی سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی تھی، جس کی سفارشات کی روشنی میں پہلا مرحلہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء جاری کیا گیا۔ یہ مقتدر ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر من و عن عمل کرکے گلگت بلتستان کے لئے آئینی اصلاحات کا اعلان کیا جائے۔ وزیر قانون اورنگ زیب ایڈووکیٹ نے دونوں قراردادوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز کمیٹی نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خارجہ پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین سفارشات مرتب کی ہیں، لیکن ان سفارشات پر من و عن عمل نہیں ہوا ہے، اگر اس ایوان کے تمام ممبران سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر متفق ہوں تو اس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تقویت پہنچے گی۔

وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی حقوق کا مسئلہ کسی ایک پارٹی کا نہیں ہے، بلکہ یہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کا مسئلہ ہے۔ ہم نے آئینی حقوق کے حوالے سے کئی قراردادیں منظور کیں، مگر کسی بھی قرارداد پر عمل نہیں ہوتا ہے، یہ ہمارے ساتھ مذاق ہو رہا ہے، اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں صوبائی وزیر اور ہماری اسمبلی کو صوبائی اسمبلی کہا جاتا ہے، مگر ہم کس صوبے کے وزیر ہیں اور یہ کس صوبے کی اسمبلی ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے مسئلے میں الجھایا گیا ہے، جس کا حل گذشتہ ستر سال سے نہیں نکلا ہے اور آئندہ ستر سالوں میں بھی یہ مسئلہ حل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہیں، اگر ان سفارشات پر چھے ماہ کے اندر عمل نہیں ہوتا ہے تو ہمیں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینا چاہیئے۔ ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوان نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کیلئے کئی قراردادیں منظور کیں، ہم نے پاکستان سے الحاق اس لئے نہیں کیا تھا کہ ہمیں مسئلہ کشمیر سے منسلک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت آئینی حقوق کے حوالے سے ایک اور کمیٹی بنانے کی بات کر رہی ہے، روزانہ کمیٹیاں بنانا ہمارے ساتھ ظلم ہے، یہ ہم سب کا بنیادی مسئلہ ہے، اس لئے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے تحت ہمارے حقوق کا اعلان کیا جائے۔

کیپٹن(ر) سکندر علی نے کہا کہ جب انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دی ہے اور اس سے مسئلے کشمیرپر کوئی اثر نہیں پڑا ہے تو گلگت بلتستان کے عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ انہیں بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی جائے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے راجہ جہانزیب خان نے کہا کہ اگر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات میں ہمیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی ہے تو ہمیں اعتراض ہے، ہمیں صوبہ کے پی کے اور صوبہ بلوچستان کے مساوی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ نواز خان ناجی نے کہا کہ بغیر کسی بحث میں اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں۔ وزیر تعلیم حاجی ابراہیم ثنائی نے قراردادوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے سیاستدان اپنے موقف کو درست انداز میں وفاق کو پیش کرنے میں شاید کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ حاجی رضوان علی نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے بغیر کسی بیرونی امداد کے اس خطے کو آزاد کرایا، 15 دنوں تک خود مختار حکومت قائم کی، جس کے بعد اس علاقے کا بغیر کسی شرط کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا، وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان علاقوں کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنائے۔

جاوید حسین نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام پانچواں صوبہ مانگ رہے ہیں، آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ وفاقی سیاسی جماعتیں ہیں، چاہے یہ پی پی ہو، مسلم لیگ نون ہو یا تحریک انصاف۔ لوگ ان سیاسی جماعتوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں، عوام کی نظریں اب سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئینی حقوق میں تاخیر کی ذمہ داری ہم ممبران اسمبلی پر بھی عائد ہوتی ہے، ہم وفاق سے آنے والے سیاسی قائدین کو سیاچن سے خنجراب تک استقبال کرتے ہیں، چوغہ اور ٹوپی پہناتے ہیں، مگر یہی سیاست دان ہمارے مسائل سننے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔ وزیر سماجی بہبود ثوبیہ مقدم نے قراردادوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں، اب یہ مسئلہ حل ہونا چاہیئے۔ میجر (ر) محمد امین نے کہا کہ اس مسئلے پر اس سے قبل بہت سی کمیٹیاں بنی ہیں، مزید کمیٹیاں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حاجی شاہ بیگ نے دونوں قراردادوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے یا پھر چترال اور کوہستان کو ملا کے صوبہ بنایا جائے۔

وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا مسئلہ انتہائی حساس ہے، اس پر سیاست نہ کی جائے، سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے  انہوں نے کہا کہ اب آئینی حقوق کا مسئلہ سپریم کورٹ میں ہے، وہاں پر ہماری قراردادوں سے کوئی اثر نہیں ہوگا، وہاں پر وکلا کے قانونی دلائل کام آئیں گے، اس مسئلے پر سنجیدگی سے جذبات سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر سپیکر فدا محمد ناشاد نے قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی جو رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوئی ہے، وہ ہمارے پاس بھی آئی ہے اور یہ سفارشات کافی حد تک ہمارے حق میں ہیں، ان سفارشات میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور مالیاتی اداروں میں نمائندگی دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 758485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش