0
Friday 2 Nov 2018 17:50

فوجی عدالتوں سے سزائیں ثبوت کی بنیاد پر نہیں دی گئیں، پشاور ہائیکورٹ

فوجی عدالتوں سے سزائیں ثبوت کی بنیاد پر نہیں دی گئیں، پشاور ہائیکورٹ
اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے حالیہ فیصلوں میں گرفتار ملزمان کو سزائیں غلط، بدنیتی اور بغیر ثبوت کے دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس لال جان خٹک پر مشتمل بنچ نے حال ہی میں فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئیں سزاؤں کے خلاف 75 اپیلوں پر 173 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواستیں قبول کیں اور سزاؤں کو معطل کر دیا اور قرار دیا کہ یہ سزائیں قانون اور حقائق کی نظر میں بدنیتی پر بنیاد رکھتی ہیں۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت مدعا علیہان کو حکم دیا کہ سزا پانے والے تمام افراد کو اگر کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہ ہوں تو رہا کر دیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‘سزا پانے والے تمام افراد کو جس انداز سے ان کے حقوق کے خلاف ملک کے مختلف حصوں سے گرفتار کرکے ایجنسیوں کی حراست میں رکھا گیا اور سزا دلوانے کیلئے حراستی مراکز میں کئی سال اور مہینوں تک رکھنے کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

خیال رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 18 اکتوبر کو تین روزہ طویل سماعت کے بعد فوجی عدالتوں کی جانب سے سزاپانے والے افراد کے کئی قریبی رشتہ داروں کی درخواستیں کو منظور کیا تھا جنہیں دہشت گردی کے مختلف الزامات پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ بنچ نے سزا پانے والے افراد کے اعترافی بیانات کو غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے جبکہ گرفتار افراد کو آئین کے آرٹیکل 10-اے کے تحت غیرجانبدار ٹرائل کے حق کے حوالے سے بھی بحث کی گئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام اعترافی بیانات کو اردو میں ریکارڈ کیا گیا جو ایک ہی ہینڈرائٹنگ اور ایک مخصوص لب و لہجے میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ عدالت نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کیلئے تین فیلڈ جنرل کورٹ مارشل عدالتیں ہیں اور تمام دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں عدالتیں ایک ہی طریقے سے کام کر رہی ہیں یہاں تک کہ کسی ایک ملزم نے بھی پوچھے گئے سوالات پر مختلف انداز میں انحراف نہیں کیا۔

بنچ کا کہنا تھا کہ تمام مقدمات میں تمام ملزمان کیلئے ایک جیسے سوالات ترتیب دیئے گئے اور سب کے جوابات بھی ایک جیسے ہی تھے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ ملزمان کے اعترافی بیانات کو گرفتاری، حراستی مراکز میں لانے کی تاریخ کے بہت بعد ریکارڈ کیا گیا جبکہ انہیں رشتے داروں یہاں تک کہ والدین اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے ملنے کی کوئی سہولت تک دستیاب نہیں تھی۔ واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 759111
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش