0
Thursday 8 Nov 2018 22:53

سی پیک پروجیکٹ کے تحت مغربی روٹ پر ابتک کوئی کام نہیں‌ کیا گیا ہے، جام کمال

سی پیک پروجیکٹ کے تحت مغربی روٹ پر ابتک کوئی کام نہیں‌ کیا گیا ہے، جام کمال
اسلام ٹائمز۔ وزیراعلٰی بلوچستان میر جام کمال نے کہا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین کسی کو بھی فروخت نہیں کرینگے۔ سرمایہ کاری کیلئے زمین لیز اور کرایہ پر دینگے۔ بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی، وہ حکومت بلوچستان کرے گی۔ بلوچستان میں سرمایہ کاری سمیت ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حکومت بلوچستان سے بات کی جائے۔ وفاق سہولت کار ضرور ہے، لیکن فیصلہ حکومت بلوچستان کرے گی۔ صوبے کی زمین کو محفوظ بناکر سرمایہ کاروں کو لاکر بیروزگاری کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت بلوچستان میں سرمایہ کاری لانے کیلئے دو ماہ بعد چین، خلیجی ممالک، یورپ سمیت دیگر ممالک میں روڈ شوز کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔ سی پیک کے مغربی روٹ کا کوئی تصور نہیں۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے منصوبے کو مغربی روٹ کا نام دے کر افتتاح کیا۔ ہمیں مغربی روٹ کی پٹڑی پر ڈال کر تمام ترقی مشرقی علاقوں میں کی گئی۔ سی پیک صرف ایک روٹ ہے، جسے گذشتہ حکومت نے خود متنازعہ بنایا، اس میں ایک روپیہ بھی گرانٹ نہیں۔ ابتدائی مرحلے میں 55 ارب ڈالر میں سے 28 ارب ڈالر خرچ کئے جاچکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال نے وزیراعلٰی ہاؤس میں سینیئر صحافیوں سے اپنے دورہ چین کے حوالے سے گفتگو کے دوران کیا۔ وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال نے کہا کہ چین کیساتھ ہونیوالے کسی بھی منصوبے میں بلوچستان کی زمین کی ملکیت کسی کو نہیں دیں گے۔ جس نے زمین لینی ہے وہ لیز، کرائے یا حصہ داری پر لے، ہماری زمین ہی ہمارا اصل آمدن کا ذریعہ ہے۔

اگر دس سال تک بلوچستان کی زمین کو سنبھال لیا تو یہ ہماری حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا۔ جب تک صوبے کا ریونیو نہیں بڑھے گا، اس وقت تک صوبے کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ دو ماہ بعد ہم چین میں روڈ شو کریں گے۔ شو کا مقصد بلوچستان کے وسائل اور مصنوعات کیلئے چینی مارکیٹ میں جگہ حاصل کرنا ہے۔ شنگھائی امپورٹ ایکسپو جیسے اقدامات سے حوصلہ ملا ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کے بہت سے وسائل اور مصنوعات جن میں زراعت، ماہی گیری، لائیو اسٹاک، سیاحت جیسے شعبہ جات شامل ہیں، ان کی چینی مارکیٹ میں اہمیت ہے۔ ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم سوچیں کہ سرمایہ کار خود آکر یہاں اپنا پیسہ لگائیں گے، تو یہ 21ویں صدی میں خام خیالی ہے۔ ہمیں بلوچستان میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا ہے، اسکے حوالے سے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔ اب بلوچستان کو اپنی نمائندگی خود کرنی ہے۔ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا دیکھنے میں لگتا ہے۔ ہمارے پاس قابلیت موجود ہیں، صرف اسے صحیح سمت میں استعمال کرنا ہے۔ سرمایہ کار چند تصاویر یا بریفنگ لینے سے نہیں آتے۔ ہمیں انہیں بلوچستان کی حقیقی تصویر دکھانے کی ضرورت ہے اور سرمایہ کاروں کو جامعہ حکمت عملی سے قائل کرنا ہوگا۔ بلوچستان کا جغرافیہ، معدنی وسائل، ساحل ہماری طاقت ہے، ہمیں اسے بروئے کار لانا ہوگا۔ اگر اقتصادی صورتحال ایسی ہی رہی تو پھر ہم ترقی کی بجائے پینشن، تنخواہیں اور پی ایس ڈی پی ہی پورا کرنے میں لگیں گے، ترقی ایسے نہیں ہو سکتی۔ سی پیک کسی ایک معاہدے کا نام نہیں ہے۔ یہ پرانے سلک روٹ جس کا نیا نام بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو ہے، اس کا ایک حصہ ہے۔ سی پیک پر ایک روپیہ بھی گرانٹ نہیں ہے، اس پر سب کچھ قرضے پر ہے۔

بلوچستان کی پرانی حکومتیں اس انتظار میں رہی کہ انہیں 55 ارب ڈالر میں سے حصہ ملے گا، جبکہ وفاقی حکومت نے سب کچھ ابتدائی مرحلے میں میٹرو اورنچ لائن اور لاہور ائیرپورٹ کی توسیع ساہیوال میں پاور پلانٹ سمیت دیگر منصوبوں کیلئے مختص کر دیا۔ جبکہ بلوچستان کو صرف 2 چھوٹے منصوبے دیئے گئے، جن میں ایک گوادر پورٹ کی توسیع اور دوسرا حب میں ایک پاور پلانٹ کا منصوبہ ہے۔ ہمیں مغربی روٹ کی پٹڑی پر ڈال دیا گیا اور خود مشرقی علاقوں میں کام کروائے گئے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے 10 سال پرانے منصوبے کو مغربی روٹ کا نام دے کر افتتاح کیا۔ ہم سی پیک کے تحت بلوچستان کو ابتدائی مرحلے میں منصوبے دلوانے کا موقع گنوا چکے ہیں، اب مستقبل کیلئے کام کرنا ہے۔ بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی، وہ حکومت بلوچستان کرے گی، جس نے بات کرنی ہے۔ کوئٹہ، اسلام آباد، گوادر حاضر ہیں۔ ہم سے بات کریں، وفاق ہمارا سہولت کار، شریک یا حصہ دار بن سکتا ہے، لیکن فیصلہ حکومت بلوچستان ہی کرے گی۔ ریکوڈک منصوبے کی متاثرہ کمپنی کی جانب سے 12 سو ملین ڈالر کا ہرجانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، جبکہ ہماری کوشش ہے کہ کم سے کم ہرجانہ ڈیڑھ سو ملین دیا جائے۔ بلوچستان میں سیندک اور ریکوڈیک جیسے دیگر وسائل بھی موجود ہیں، ہم ان پر بھی کام کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کا فیصلہ مثبت اقدام ہے۔ گوادر میں اراضی کی بندر بانٹ کرکے بلوچستان کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا۔ صوبے پر اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوسکتا۔ صوبے میں آئل ریفاینری لگانے کیلئے 80 ہزار ایکڑ زمین لی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی ریفاینری بھی 600 ایکڑ پر مشتمل ہیں، یہ زمین بھی ضرورت سے زیادہ ہیں۔

اگر ہم گوادر میں 2 سے ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین بچا لیں، تو یہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ پسنی میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ اگلے چند ماہ میں ضلع گوادر کو 4 سے 5 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کریں گے، جس سے پورے ضلع کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ترقی کیلئے درمیانے اور طویل مدتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے منصوبے جو ایک سے 4 سال کی مدت میں مکمل ہوں، ان سے اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنا ممکن ہے۔ بلوچستان میں جو بھی ملک سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، ہم اسے خوش آمدید کہیں گے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ چین سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہم بھی ترقی کرسکتے ہیں اور انکی نظام کی مثبت چیزیں اپنے ملک میں لاسکتے ہیں۔ بلوچستان اس وقت بھی مالی بحران کا شکار ہے، ہمیں پی ایس ڈی پی کی اسکیمات کو مکمل کرنے کیلئے 4 سو ارب روپے کی ضرورت ہے، لیکن ہم حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی بغیر قرضہ لئے اپنے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ صوبے میں 80 ارب روپے کی ایسی اسکیمات ہیں، جو گذشتہ 8 سے 9 سال سے تکمیل کے قریب لیکن بند پڑی ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے ترجیحات بنا لی ہے۔ جلد ہی فنڈ ریلیز کرکے ان اسکیمات کو مکمل کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 760135
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش