کوئٹہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری
میرے بھائیوں کا اگر کوئی گناہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ایک بہن کی فریاد
7 Dec 2018 23:43
لاپتہ ہونیوالے طالب علم جئیند بلوچ اور ان کے چھوٹے بھائی حسنین کی بہن مہ رنگ بلوچ کیمطابق 30 اور 31 نومبر کی درمیانی شب ڈیڑھ بجے کالے یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ انکے گھر میں داخل ہوئے اور دونوں بھائیوں اور والد کو گھر سے لے گئے، والد کو دو روز بعد چھوڑ دیا گیا مگر دونوں بھائی تاحال لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انکے والد بیمار رہتے ہیں۔ رہائی کے بعد تاحال ہماری والد سے بات نہیں ہوئی۔
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والا ایک طالب علم اپنے بھائی سمیت لاپتہ ہوگیا ہے۔ لاپتہ ہونے والے طالب علم جئیند بلوچ اور ان کے چھوٹے بھائی حسنین کا تعلق کوئٹہ شہر سے ہے، جہاں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم احتجاجی کیمپ میں علامتی بھوک ہڑتال میں شریک بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے بتایا کہ جیئند بلوچ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے اظہار یکجہتی کے لئے اکثر کیمپ آیا کرتے تھے۔ کوئٹہ سے اٹھائے جانے والے دو بھائیوں جیئند بلوچ اور حسنین بلوچ کیلئے احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں عام افراد کے علاوہ اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد نے شرکت کی، شرکاء ریلی نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پہ نعرے درج تھے، "جئیند بلوچ کو رہا کرو، حسنین بلوچ کو رہا کرو" کچھ لوگوں نے لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔ لاپتہ ہونے والے طالب علم جئیند بلوچ اور ان کے چھوٹے بھائی حسنین کی بہن مہ رنگ بلوچ کے مطابق 30 اور 31 نومبر کی درمیانی شب ڈیڑھ بجے کالے یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور دونوں بھائیوں اور والد کو گھر سے لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ والد کو دو روز بعد چھوڑ دیا گیا مگر دونوں بھائی تاحال لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد بیمار رہتے ہیں۔ رہائی کے بعد تاحال ہماری والد سے بات نہیں ہوئی۔ بیمار ہونے کے باعث تاحال ہم نے والد سے نہیں پوچھا کہ ان کو اٹھانے والے کون تھے اور ان سے کیا پوچھ گچھ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جتنا ہمارا اندازہ ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جو لوگوں کو اٹھاتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان والے تو گھروں کے اندر گھس کر لوگ نہیں اٹھاتے ہیں۔ اب ہم مجبوری کے تحت سڑکوں پر نکلے ہیں، بے پناہ مجبوری۔ جس گھر سے دو نوجوان لڑکے اٹھائے جائیں تو اس گھر کا کیا عالم ہوگا۔ مہ رنگ کا کہنا تھا کہ ہم بہن بھائی ایک دوسرے کے بہت قریب رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ ان کا کوئی قصور ہوگا یا جرم ہوگا، میرے بھائیوں کو بلاوجہ وہ اٹھا کر لے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کا کوئی قصور ہے، یا ان پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ یہ عدالت اور یہ قانون کس کام کے ہیں۔ تاحال لاپتہ افراد طالبعلوں کے رشتہ داروں نے کوئٹہ صدر پولیس سٹیشن میں ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج نہیں کرایا ہے۔ دوسری جانب صدر پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے فون پر میڈیا کو بتایا کہ ابھی تک دونوں لاپتہ طالب علموں کے رشتہ دار مقدمہ درج کرانے تھانے نہیں آئے۔ پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم نے طالب علموں کے رشتہ داروں سے رابطہ کیا تھا لیکن وہ ابھی تک نہیں آئے۔ کوئی بھی گمشدہ پاکستانی ہمیں اتنا عزیز ہے جتنا ہونا چاہیئے۔ جمعرات کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے گمشدہ افراد اور ان کی بازیابی کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
خبر کا کوڈ: 765405