0
Tuesday 11 Dec 2018 19:27

کراچی تجاوزات کیس، ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار

کراچی تجاوزات کیس، ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار
اسلام ٹاقئمز۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگ گئی ہے، آپ کو اندازہ نہیں میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے، ہمیں ہر حال میں قانون کی بالادستی چاہیے، ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے، ہمیں ہر حال میں قانون کی بالادستی چاہیے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ہم کراچی والے ہیں، ہم بھی بہتری چاہتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کے دوران ریمارکس دیئے کہ کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا، تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، گورنر صاحب نے کال کرکے کہا کہ یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ احتجاج شروع کر دیں اور ہم ریاست کی رٹ ختم کر دیں، کیا قبضہ مافیا کے سامنے سر جھکا دیں، کراچی کو اسی طرح چھوڑ دیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کارروائی روک دیں گے، تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ کا انتظام حکومت خود کرے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ چار ہفتے کا وقت دے دیں، مسئلے کا حل نکالیں گے۔ میئر کراچی نے کہا کہ ہم عملدرآمد کر رہے ہیں، بس گھروں کو نہ توڑا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم تو نہیں دیا، آپ خود کر رہے ہیں تو ہمارا مسئلہ نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے دیکھا تھا نالے پر عمارت بنی ہوئی ہے، اس کا کیا ہوا، ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ نہرِ خیام پر ایک عمارت بنی ہوئی ہے۔ میئر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ باغ ابنِ قاسم میں ایک عمارت ہے، وہاں مسلح لوگ بیٹھے ہیں اور شاید معاملہ ہائیکورٹ میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میئر صاحب آپ کو کسی نے نہیں روکا، کام جاری رکھیں، کون ہے قبضہ کرنے والا بتائیں، ابھی ہائیکورٹ سے فائل منگواتے ہیں، اچھی طرح سن لیں، غیر قانونی عمارت اور قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل اور میئر کراچی کے درمیان اس وقت سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، جب ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ میئر کراچی کو فٹ پاتھوں اور پارکوں کا ٹاسک ملا ہے، لیکن دکانوں سے کہیں آگے جا چکے ہیں، پہلے متبادل کا سوچنا ہوگا، دو ہفتے میں منصوبہ بنالیں گے، آپ مئیر کراچی کو 4 ہفتوں کیلئے آپریشن سے روکیں۔ جس پر وسیم اختر نے کہا کہ میں خود مانیٹر کر رہا ہوں، کوئی ایک مکان بتا دیں، جو توڑا گیا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیوں روکیں، آپ مل کر بیٹھیں اور خود طے کریں، میئر کہہ رہے ہیں، انہوں نے کوئی گھر نہیں توڑا، وہ چھجے اور غیر قانونی دکانیں توڑ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے وفاقی و صوبائی حکومت اور مئیر کراچی کو مل بیٹھ کر جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کل صبح ہم تھر جا رہے ہیں، ہم رات یہیں بیٹھے ہیں، آج رات 12 بجے یہاں آجائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ کارروائی جاری رہنی چاہیے، اگر تسلسل ٹوٹ گیا تو پھر کام ہونا مشکل ہے، تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرکے آئیں۔

دوران سماعت ایک شہری نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے سابق وزیر اویس مظفر ٹپی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا کہ شاہ لطیف ٹاؤن میں بڑے پیمانے پر ناجائز قبضہ ہے، بیوائیں روتی ہیں، اور یہ قبضے اویس مظفر ٹپی نے کرائے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ہے یہ ٹپی، کہاں ہے یہ ٹپی، اسے کل پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب کی حکومت یا کسی وزیر نے کہیں قبضہ کیا ہوا ہے تو فوری خالی کریں، میئر صاحب آپ بھی کان کھول کر سن لیں، دو دن میں کسی رہنما یا کسی نے قبضہ کیا ہے تو خالی کر دے، آپ صفائی گھر سے شروع کریں اور لوگوں کیلئے مثال بنائیں، کسی کے قبضے کی نشاندہی ہوگئی، تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔
خبر کا کوڈ : 766150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش