0
Saturday 15 Dec 2018 23:44

جنرل (ر) راحیل شریف کو دیا جانیوالا این او سی غیر قانونی قرار

جنرل (ر) راحیل شریف کو دیا جانیوالا این او سی غیر قانونی قرار
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے سعودی عرب میں اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے بیرون ملک ملازمت کے این او سی کو غیر قانونی قرار دے کر اس کی درستی کے لئے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہ ہونے کی صورت میں جنرل (ر) راحیل شریف اپنی موجودہ غیر ملکی ملازمت سے فوری طور پر سبکدوش تصور کئے جائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور مسٹر جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بنچ نے یہ حکم ججوں اور سرکاری و عدالتی ملازمین کی دوہری شہریت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا۔ فاضل بنچ نے سرکاری ملازمت کے بعد خود یا اپنے خاندان کے افراد کے لئے دوہری شہریت حاصل کرنے والے افسروں کے لئے ڈیڈ لائن مقرر کرنے کا حکم بھی دیا ہے، جس کے اندر انہیں دوہری شہریت یا ملازمت میں سے ایک چھوڑنی ہوگی۔ فاضل بنچ نے حکومت کو دوہری شہریت کے حوالے سے پیرامیٹرز اور راہنما اصول طے کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ اہم سرکاری عہدوں پر دہری شہریت والے افسران کو تعینات نہیں ہونا چاہیئے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں دوہری شہریت کے حامل یا پاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے سرکاری ملازمین اور پاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے پاکستانی نژاد افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کے علاوہ حکومت کو ضروری قانون سازی کے لئے راہنما اصول بھی فراہم کئے ہیں۔ عدالت نے 29 ستمبر 2018ء کو اس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو  آج سپریم کورٹ میں سنایا گیا۔ فاضل بنچ نے 52 صفحات پر مشتمل اپنے اس فیصلے میں آئین، شہریت، سرکاری ملازمت اور نیشنل ڈیٹا بیس سمیت مختلف قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد قرار دیا ہے کہ کئی معاملات ایسے ہیں، جن کی عدالتی تشریح کے ذریعے داد رسی ممکن نہیں ہے، جب تک کہ پارلیمنٹ ان پر قانون سازی نہ کرے۔ عدالت نے جنرل (ر) راحیل شریف کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ ان کا این او سی قانون کے مطابق نہیں ہے، انہیں بیرون ملک ملازمت کے لئے جی ایچ کیو اور وزرات دفاع نے این او سی جاری کیا تھا جبکہ قانون کے تحت سابق سرکاری ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کرسکتی ہے، اس این او سی کے بغیر کوئی سابق سرکاری ملازم کسی غیر ملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت نہیں کر سکتا۔

عدالت قرار دے چکی ہے کہ حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے، اٹارنی جنرل نے اس معاملے کا جائزہ لینے کے لئے عدالت سے مہلت طلب کی تھی، اب سیکرٹری دفاع کو حکومت سے این او سی کی بابت ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے، اگر مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او اسی جاری نہیں کیا جاتا تو جنرل (ر) راحیل شریف بیرونی ملازمت سے سبکدوش تصور کئے جائیں گے۔ عدالت نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ انہوں نے عدالت میں سرٹیفکیٹ پیش کیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات یا کسی بھی دوسرے ملک میں ملازمت نہیں کر رہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ہدایت کی کہ وفاقی حکومت سابق سرکاری ملازمین کی غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں میں نوکریوں کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کو پیش کرے۔ عدالت نے قرار دیا کہ قانون کے تحت امریکہ اور برطانیہ سمیت 19 ممالک ایسے ہیں، جن کے ساتھ پاکستانی دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں، ان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوہری شہریت کی گنجائش نہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ موجودہ قوانین کے تحت ایسے پاکستانی جو مذکورہ 19 ممالک کے سوا کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوہری شہریت رکھتے ہیں، وہ پاکستان میں ملازمت نہیں کرسکتے، تاہم وہ حکومت کے زیر انتظام خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں ملازمت کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ راہنما اصول اور حدود کا تعین کریں۔ پاکستانی نژاد لیکن پاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے افراد غیر ملکی تصور کئے جائیں گے، انہیں پاکستانی نژاد ہونے کا جو نادرا کارڈ جاری کیا جاتا ہے، اس کے تحت انہیں مختلف استحقاق حاصل ہیں، لیکن یہ ورک پرمٹ نہیں ہے، انہیں پاکستان میں ملازمت کرنے کے لئے غیر ملکیوں کی طرح پاکستانی حکومت سے پرمٹ حاصل کرنا ہوگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ دوہری شہریت کا حامل کوئی پاکستانی مسلح افواج کے اداروں میں ملازمت نہیں کرسکتا، اسے فوج کی ملازمت سے قبل دوہری شہریت چھوڑنا ہوگی۔

عدالت نے قرار دیا کہ دوران ملازمت غیر ملکی شہریت لینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، یہ لوگ دوہری شہریت لے کر سروس کے دوران یا ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک سیٹل ہونے کا پلان بناتے ہیں۔ دوہری شہریت رکھنے والے یہ لوگ پاکستان کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک جیسے قانون اور ضابطے بنائیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ وہ پاکستانی جو دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے، وہ پاکستان کا شہری نہیں رہتا۔ عدالت نے دوہری شہریت کے حوالے سے کیس میں تین درجہ بندیاں کیں، پہلے درجہ میں دوہری شہریت کے حامل اشخاص کو رکھا گیا، دوسرے درجہ میں ان لوگوں کو رکھا گیا جو پاکستانی نژاد ہیں، لیکن پاکستانی شہری نہیں جبکہ تیسرے درجہ میں ان لوگوں کو رکھا گیا، جن کے بیوی بچے دوہری شہریت یا غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ متعلقہ 19 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت والے ایسے ہی ہیں، جیسے وہ پاکستان کے شہری ہوں جبکہ دیگر غیر ملکی تصور کئے جائیں گے۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستانی نژاد لیکن غیر شہری افراد کے حوالے سے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے، یہ لوگ پاکستان میں سرکاری ملازمت نہیں کرسکتے، تاہم ان کے معاملے کو ہر ادارے کے قانون کے مطابق فرداً فرداً دیکھا جاسکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان لوگوں کو دیگر غیر ملکیوں کی طرح ملازمت کے لئے حکومت سے اجازت لینا ہوگی۔ عدالت کے علم میں آیا ہے کہ پاکستانی نژاد غیر شہریوں کو بورڈ آف انویسٹمنٹ پرمٹ جاری نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ پاکستانی نژاد ہونے کے نادرا کے کارڈ کے باعث ان لوگوں کو پرمٹ کی ضرورت نہیں، یہ تاثر غلط ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ پاکستانی نژاد غیر شہریوں کے ورک پرمٹ کے بارے میں حکومت پاکستان ایک ماہ کے اندر حتمی فیصلہ کرے، اس فیصلے تک موجودہ صورتحال برقرار رہے گی۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس بات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے کہ دوہری شہریت والوں کو پاکستان میں سرکاری ملازمت کا حق دیا جائے یا نہ دیا جائے۔

حکومت کو ہر سال پارلیمنٹ میں ایسے سرکاری ملازمین کی فہرست پیش کرنی چاہیئے، جو خود یا ان کے بیوی بچے دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ سرکاری خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ملازمین کے حوالے سے ان کے نگران اداروں کو بھی ایسی فہرست بھیجی جانی چاہیئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ غیر ملکی شہریت والے سرکاری ملازمین ریاست پاکستان کے مفاد کیلئے خطرہ ہیں، غیر پاکستانیوں کو پاکستان میں عہدے دینے پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے، غیر پاکستانیوں کو عہدے دینے پر مکمل پابندی بارے پارلیمنٹ واضح فیصلہ کرے، ضروری حالات میں کسی غیر پاکستانی کو عہدہ دینے سے قبل متعلقہ کابینہ سے منظوری لی جائے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دوہری شہریت والے اپنے اپنے ملازمین کی فہرستیں مرتب کرکے ان کے نام منفی فہرست میں ڈالنا چاہیئے اور اسے ہر سال پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی میں پیش کرنا چاہیئے۔

اس کیس میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1116 افسر غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں، ان میں سے 1098 دوہری شہریت جبکہ 18 غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 1249 ایسے افسر ہیں، جن کے بیوی بچے دوہری شہریت یا غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں۔ اس معاملے کی ایف آئی اے نے تحقیقات کی تھیں، ایف آئی اے کی طرف سے بتایا گیا کہ 261 افسروں نے اپنی دوہری شہریت جبکہ 6 افسروں نے غیر ملکی شہریت کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ان 19 ممالک کی فہرست بھی شامل کی ہے، جن کے ساتھ پاکستانی دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں، ان میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، بیلجیم، آئس لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، فن لینڈ، مصر، اردن، شام، سویٹزرلینڈ، نیدرلینڈز، امریکہ، سویڈن، آئرلینڈ، بحرین اور ڈنمارک شامل ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ درست ہے کہ مذکورہ ممالک کی شہریت لیتے وقت وہاں وفاداری کا ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے، لیکن ہمارے قانون میں ان ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کی اجازت ہے۔ فاضل بنچ نے قرار دیا کہ حکومت اس حوالے سے پیرامیٹرز کے تعین کے لئے قانون سازی کرے، تاہم قانون سازی تک موجودہ قانون برقرار رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 766893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش