1
0
Sunday 5 Jun 2011 13:35

اوباما انتظامیہ پاکستان میں ڈرونز حملوں پر تقسیم ہو گئی ہے، امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ

اوباما انتظامیہ پاکستان میں ڈرونز حملوں پر تقسیم ہو گئی ہے، امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ
کراچی:اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اوباما انتظامیہ پاکستان میں ڈرونز حملوں پر تقسیم ہو گئی۔ ڈرونز حملوں کے مسئلے پر اوباما انتظامیہ کے پہلے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں ہر صورت ڈرونز حملے جاری رہیں گے جبکہ کچھ امریکی سفارت کار اور اعلیٰ فوجی حکام ڈرونز حملوں میں کمی کے حق میں ہیں۔ اخبار کے مطابق پاکستانی حکام ان ڈرونز کی عوامی سطح پر مذمت کرتے ہیں جبکہ نجی سطح پر ان حملوں پر راضی ہیں۔ امریکی اخبار کے ایک تفصیلی مضمون میں کہا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کو ہدف بنانے کیلئے ڈرونز پروگرام پر تقسیم ہو گئی ہے۔ پاکستان میں امریکی سفیر اور اعلیٰ امریکی حکام سی آئی اے کے جارحانہ ڈرونز حملوں پر قابو پانے کیلئے دباوٴ ڈال رہے ہیں، اس طرح کا اقدام کم از کم عارضی طور پر پروگرام کو رول بیک کرنے کے مترادف ہو گا۔ اوباما نے صدر بنتے ہی ڈرامائی طور پر پاکستان میں ڈرونز حملوں میں اضافہ کر دیا اور یہاں عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرونز کو اتحادی فوج کا اہم ہتھیار سمجھا گیا، اس پروگرام سے شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی پاکستان کی سرزمین پر ناراضگی اور اشتعال پیدا ہوا ہے۔
اخبار کے مطابق جنوری میں ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کی ہلاکت، ڈیوس کی رہائی کے فوراً بعد ڈرونز حملے اور اسامہ کیلئے ایبٹ آباد واقعے نے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ کر دیئے، جس کے بعد ڈرونز حملوں پر دونوں ممالک میں بحث شروع ہو گئی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق وائٹ ہاوٴس میں قومی سلامتی کونسل نے ایک اہم اجلاس میں ڈرون حملوں میں کمی پر بات چیت کی۔ اجلاس میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا نے موجودہ پروگرام کو برقرار رکھنے کے حق میں دلائل دیئے اور کہا کہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ڈرونز حملے بہترین ہتھیار ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس پروگرام کو جاری رکھا جائے گا، سی آئی اے کے جارحانہ ڈرونز حملوں کے متعلق اوباما انتظامیہ کا یہ پہلا اعلیٰ درجے کا اجلاس تھا۔ ڈرونز حملوں میں کمی کے حق میں رائے رکھنے والے اعلیٰ حکام کے مطابق ڈرونز پروگرام پر نظرثانی کے متعلق بحث جاری رہے گی، اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ بات چیت بھی جاری رکھی جائے گی۔
امریکی اعلیٰ حکام بشمول جو ڈرونز حملوں میں کمی کے حق میں ہیں، ان کے نزدیک پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرونز کا استعمال ایک موٴثر حل ہے اور وہ سی آئی اے کے ان حملوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان حملوں سے القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکت ہوئی اور اس کے ساتھ عسکریت پسندوں کو پہاڑوں تک محدود کر دیا گیا۔ اوباما انتظامیہ میں کوئی بھی ڈرونز حملوں کو یکسر روکنے کے حق میں نہیں ہے لیکن امریکی محکمہ خارجہ اور اعلیٰ فوجی حکام کا ایک گروپ اب بند دروازوں کے پیچھے یہ دلائل دیتا ہے کہ ڈرونز حملوں میں شدت نے پاکستان کے ساتھ اتحاد کو مشکل میں ڈال دیا ہے، اگر حملوں کی شدت میں تیزی رہی تو ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملک پاکستان کے غیر مستحکم ہونے کا خدشہ ہے۔ ان خدشات سے موجودہ اور سابق امریکی حکام بخوبی واقف ہیں۔ 
ڈرونز حملوں کے حامی امریکی حکام ان کو غیرقانونی قرار دیئے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی تشویش کو حالیہ مہینوں میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، پاکستان سے جاری کشیدگی ڈرونز حملوں کے پروگرام کو روکنے کا باعث نہیں بنے گی۔ واضح رہے کہ اخبار کے مطابق اب تک اس سے قبل امریکا میں ڈرونز حملوں پر ایک خاموشی طاری تھی۔ اخبار مزید کہتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کو وائٹ ہاوٴس اور کانگریس میں زیادہ تر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس میں پذیرائی حاصل ہے۔ اخبار کے مطابق پاکستانی حکام نے ہمیشہ عوامی سطح پر ڈرونز پروگرام کی مذمت کی جبکہ اندرون خانہ وہ اس پر رضامند ہیں اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حملے سی آئی اے کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔ 
اب اسلام آباد ڈرونز حملوں کو روکنے کے لیے واشنگٹن میں سرکاری اور نجی سطح پر لابنگ کر رہا ہے اور اس کی جانب سے شکایت کی جا رہی ہے کہ ان حملوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ پاک آرمی کے جنرل آصف یاسین ملک کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ڈرون حملوں سے قبائلی رہنماوٴں کے ساتھ اتحاد مشکل ہے۔ یہ حملے منفی اثر ڈالتے ہیں اور مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ اور غیر مستحکم بناتے ہیں۔ موجودہ اور سابق امریکی حکام کے مطابق حال ہی میں بند دروازوں کے تسلسل کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں امریکی سفیرمنٹر اور کچھ اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا تھا کہ ٹارگٹڈ ڈرونز حملے زیادہ موٴثر ہوں گے، جس سے پاکستان کو سیاسی طور پر بھی آسانی رہے گی اور حکام کو واشنگٹن کے ساتھ کام کرنے میں بھی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ گزشتہ سال سی آئی اے نے سو ڈرونز حملے کیے جبکہ رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں 30 فیصد حملوں میں کمی آئی۔ امریکی درخواست کے بعد پاکستانی حکام نے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کے اشارے دیئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 76919
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Finland
اس کا مطلب هیں که جب تک پاکستان میں شدت پسند هیں ٫ ڈرون حملے بهی جاری رهینگے یعنی که القاعده اور ان جیسے شدت پسند گروپس کی وجه سے حمارے ملک کی بیگناه عوام مرینگے . امریکه کا تو حمارے پروا نهیں هیں مگر حمارے اپنے مسلمان پاکستانی کو کیا هو گیا هیں . الله کے لیے یے سب غیر پاکستانی جهادی لوگ کو پاکستان سے نکال دو وررنه نه پاکستان رهیگا اور نه پاکستانی .
ہماری پیشکش