3
0
Sunday 30 Dec 2018 01:14

مختلف مسالک کے علمائے کرام پر مشتمل وفد کا دورہ وزیرستان اور سوشل میڈیا پر بحث

مختلف مسالک کے علمائے کرام پر مشتمل وفد کا دورہ وزیرستان اور سوشل میڈیا پر بحث
اسلام ٹائمز۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا عارف علوی اور مولانا امین شہیدی سمیت مختلف مسالک کے علماء کے وفد نے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے 4 اراکین اور دیگر مذہبی قائدین کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ اور تحصیل میر علی کا دورہ کرایا گیا۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کے مطابق ہم نے دیکھا کہ زبردست معاشی سرگرمیاں جاری ہیں اور زور و شور سے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ترکی طرز کی دو مساجد بھی تعمیر ہوچکی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیرستان کے دورے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمیں ڈاکٹر قبلہ ایاز، کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ احمد لدھیانوی، شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی، چیئرمین امام خمینی ٹرسٹ علامہ افتخار حسین نقوی، سربراہ امت واحدہ پاکستان علامہ محمد امین شہیدی، مولانا فضل الرحمان خلیل سمیت علمائے کرام شامل تھے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ دورہ خاصی اہمیت حاصل کرچکا ہے، مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنان اور رہنما اس پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک تبصرہ نگار نے اس مناسبت سے لکھا کہ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس سے پہلے اسلام آباد میں فیصل مسجد کے پاس ایک آرمی آفیسر کی زیرصدارت ایک اجلاس ہوا تھا، جس میں کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی، علامہ امین شہیدی، علامہ افتخار نقوی اور علامہ عارف واحدی شریک تھے، اس ملاقات کا انکشاف مولانا احمد لدھیانوی نے اپنے ایک خطاب کے دوران کیا تھا، جس کے بعد علامہ امین شہیدی نے اس پر تفصیلی وضاحت جاری کی تھی جبکہ علامہ عارف واحدی اس ملاقات سے مکمل طور پر انکاری تھے۔

ملک بھر کے علماء کا دورہ وزیرستان اور منفی پروپیگنڈا:
سربراہ امت واحدہ مولانا امین شہیدی نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید پر تفصیلی جواب بھی لکھا ہے، جس کا متن کچھ یوں ہے۔ ’’کل سے سوشل میڈیا پر اس دورے کے حوالے سے مخالف اور موفق آراء کا اظہار کیا جا ریا ہے اور ہمارے کچھ نوجوان جن کی ڈور کہیں اور سے ہلتی ہے، اس سلسلے میں منفی پروپیگنڈہ، جھوٹ، تہمت اور کردار کشی پر اتر آئے ہیں۔ مختصراً چند نکات پیش خدمت ہیں۔
 اولاً: میں دہشت گردوں سے کسی نشست و برخاست میں یا کسی خفیہ میٹنگ میں نہیں گیا تھا بلکہ طالبان اور شدت پسندوں کے سابقہ ٹھکانوں پر فتح کے بعد آرمی کی دعوت پر پورے ملک سے دعوت شدہ مختلف مسالک کے علماء کے ایک وفد کے ہمراہ شمالی وزیرستان، میران شاہ اور میر علی کے دورے پر گیا تھا، جو کہ گذشتہ دس سالوں سے دہشت گردی اور کالعدم جماعتوں کے خلاف میرے موقف کی کامیابی کی دلیل ہے۔
ثانیاً: وفد میں اگر کالعدم دہشت گردوں کا سرغنہ شامل تھا تو یہ سفر اس کے موقف کی بدترین شکست، ذلت اور اس کے ماضی کے مکمل غلط ہونے کی دلیل ہے۔
ثالثاً: دہشتگردی، شدت پسندی، فرقہ واریت اور تکفیریت کے خلاف جو بھی قدم اٹھے گا، اس میں ہمیں مکمل طور پر من حیث الشیعہ فرد اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور دشمن کو خالی جگہ فراہم نھیں کرنی چاہیئے۔

رابعاً: ایسے معاملات میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا، ہم سے بھاگنا اور ہمارا سامنا نہ کرنا ان دہشتگرد تکفیریوں کو چاہیئے جو ہمیں کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے اور ان کے نکتہ نظر کو شکست فاش ہوچکی ہے۔
خامساً: ایسے مواقع پر دہشت گرد گروہوں کے طرفداروں کو بہت پریشان، مضطرب اور خوف زدہ ہونا چاہیئے، کیونکہ پوری قوم اب ایک طرف ہے اور ان شدت پسندوں کی نہ سُنی جا رہی ہے اور نہ حمایت ہو رہی ہے، ایسے دورے اُن کی فکر اور سوچ کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں اور ہماری فتح کا اعلان ہے، جبکہ ہمارے بعض دوست احباب اور جوان فوراً پریشان ہو جاتے ہیں اور مخالفین مطمئن نظر آتے ہیں۔
سادساً: اگر کسی بھی سطح پر مخالفین سے مذاکرات اور گفتگو کی بات ہو تو وہاں پوری قوت، دیانتداری اور ایمان کے ساتھ دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرنا اور تمام تر دنیوی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر میدان میں کھڑا ہونا ہمارے ایمان، حمیت اور غیرت کا تقاضا ہے اور یہ فریضہ ہر تنظیم، جماعت اور مجھ جیسے فرد کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ان شاء للہ جب تک جسم میں خون کا آخری قطرہ باقی ہے، دین، ملک اور اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ جاری رہے گا، چاہے اکیلا ہی کیوں نہ رہ جاوں۔
محمد امین شھیدی
خبر کا کوڈ : 769274
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
مولانا احمد لدھیانوی، مولانا عارف علوی اور مولانا امین شہیدی سمیت مختلف مسالک کے علماء کے وفد نے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا ہے۔
لگتا ہے اسلام ٹائمز بھی کسی بریگیڈئیر سے کمانڈ لے رہا ہے۔ اگرچہ آپ کمنٹ پبلش تو نہیں کریں گے لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ کی طرف سے سپاہ صحابہ کے سرغنہ کو مولانا کے القاب کے ساتھ عزت و احترام سے لدھیانوی لکھنا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے!
اگر کوئی صفائی ہو تو ضرور پیش کریں۔
Iran, Islamic Republic of
چند متشدد تکفیری اور دیگر علماء کا دورہ وزیرستان اور قوم میں بے چینی
جب سے اس دورے کی اطلاع قوم کو ملی ہے ہر طبقے میں اس کے مثبت منفی نکات اور اثرات پر بات ہو رہی اور اس کا مختلف ذرائع جیسے سوشل میڈیا وغیرہ سے اظہار ہو رہا ہے۔

بعض علماء نے اس دورے میں تکفیریوں کی اکثریت ہونے کے سبب اس میں شیعہ علماء کی شرکت اور اس دورے کے مقاصد و اہداف پر تحفظات کو اپنی ذات پر تنقید تصور کیا اور تحفظات کا اظہار کرنے والوں کو کسی تیسری طاقت کا ایجنٹ قرار دے دیا ہے۔ ایجنٹ سازی کی یہ روش گو پرانی ہے لیکن کسی لحاظ سے پسندیدہ و مفید نہیں ہے۔ قوم کے کسی بھی طبقے کی تنقید کا محترمانہ اور مدلل جواب دینا اور اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہیے اور جہاں ضروری ہو وہاں قوم کی فکر کی اصلاح کی جانی چاہیے، وگرنہ اگر علماء جو معاشرے کے استاد کا درجہ رکھتے ہیں، وہ بھی تنقید کرنے والے طبقات کو ایجنٹ و جھوٹے تہمت لگانے والے نہ جانے کیا کیا کہنا شروع کر دیں گے تو شدت پسندی اور کسے کہتے ہیں۔

حجت الاسلام محمد امین شہیدی صاحب کے نام سے اس تنقید کے بعد ایک وضاحتی میسج وائرل ہوا ہے، اس کے ذیل میں چند نکات عرض کرتا ہوں۔
اولاً
یہ وفد مختلف مسالک کے علما پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اس کی اکثریت تکفیری و متشدد علماء پر مشتمل تھی، جن میں سے اکثر کالعدم تنظیموں کے سابق سربراہ, طالبان کے سہولت کار اور تکفیری سوچ و دہشت گردی کے فکری و روحانی باپ تھے۔ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں سب سے بڑا مسلک بریلوی سنی مسلک ہے، اس وفد میں کتنے نمایندے سنی بریلوی مسلک کے تھے؟ جو اسے مختلف مسالک کا وفد قرار دیا جا سکے۔؟ پس آپ مختلف مسالک کے وفد کے ساتھ نہیں منتخب شدت پسند مولویوں کے ساتھ میران شاہ اور میر علی کے دورہ پر تشریف لے گئے ہیں۔
ثانیاً
وفد میں کالعدم دہشت گردوں کا ایک سرغنہ نہیں تھا بلکہ وفد کی اکثریت بین الاقوامی شہرت یافتہ دہشت گرد، ان کے سہولت کار یا فکری باپ تھے اور یہ ان کے ماضی کی کیسے شکست تھی جبکہ وہ ماضی میں خود کو سنی اکثریت کا نمایندہ ڈکلیئر کرتے اور شیعہ کی تکفیر سنی اکثریتی مینڈیٹ پر کرتے تھے اور ان کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ انہیں سنی قوم کا نمایندہ تصور کیا جائے، کیا یہ دورہ انہیں پوری سنی قوم کا نمایندہ تصور کیے جانے کے مترادف نہیں ہے؟ ورنہ سنی علماء کے ہاں قحط الرجال تو نہیں ہے کہ صرف یہ چند تکفیری اور شدت پسند دہشت گرد مولوی ہی بچے تھے۔
ثالثاً
یہ اقدام کس عنوان سے دہشت گردی و شدت پسندہ و فرقہ واریت کے خلاف تصور کیا جائے؟ آیا اس دورے میں ان علماء نے اپنے سابق مواقف کا انکار کیا ہے؟ شیعہ کو مسلمان تصور کیا ہے؟ اس کے بعد اپنی قوم کو بھی شیعہ کے مسلمان ہونے کی تلقین کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ شدت پسندی تو یہ ہے۔ بظاہر تو یہ دورہ شدت پسندی و تکفیریت کو رسمیت دینے کے مترادف ہے، کیونکہ پورے ملک سے تکفیریت و شدت پسندی کے نمایندوں کو منتخب کرکے مقتدر ریاستی ادارے نے اپنے اہم ترین پروجیکٹ کی بریفنگ دی ہے۔
رابعاً
وہ ہم سے بھاگتے ہیں یا ہم ان سے، اس بات کا تو ابھی تک فیصلہ ہونا باقی ہے۔ شیعہ اکابرین کا موقف یہ رہا ہے کہ ہم تکفیری عناصر کے ساتھ اس وقت تک نہیں بیٹھیں گے، جبتک وہ تکفیریت کا انکار اور تمام مکاتب فکر بشمول تشیع کو علی الاعلان مسلمان ڈکلیئر نہیں کرتے اور اپنے سابقہ تکفیری فتاویٰ و واجب قتل کے فتاویٰ سے برأت کا اظہار نہین کرتے۔ یہ جو آپ نے ان کی ہمراہی کی ہے، کیا یہ سب کام ہوگئے ہیں، جو آپ انہیں فیس کرنے چل دیئے۔؟
خامساً
بالکل دہشت گرد گروہوں کو بہت پریشان ہونا چاہیے اور ہمیں بالکل پریشان نہین ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے، کیونکہ مقتدر ریاستی ادارے کی قوم کے قاتلوں کو اثاثے سمجھنے, معتبر سمجھنے اور قوم کا نمایندہ سمجھنے کی پالیسی میں ذرا برابر فرق نہیں آیا، ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے مقتدر ریاستی ادارے کی پالیسی میں کتنا استقلال ہے کہ دنیا پیٹ پیٹ کر مر گئی کہ دہشت گردوں سے دوری اختیار کرو، ورنہ ہم تمہارا معاشی بائیکاٹ کریں گے, ہم تم پر پابندیاں لگائیں گے، تمہارا عالمی اعتبار اور حیثیت خراب ہوجائے گی، لیکن ہم کسی بھی پریشر کو خاطر میں نہ لاتے ہویے اپنی مستقل پالیسی پر ڈے ہوئے ہیں. اب کل جب FTAF کی واچ لسٹ سے بلیک میں ڈالا گیا تو خوش ہوکر کہنا یہ تو سیاسی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے. مقتدر ادارہ تو اپنا کام درست کر رہا ہے۔
سادساً
یہ آپ کا نیا بیانیہ ہے، آپ کا پرانا بیانیہ یہ ہے کہ تکفیریوں و شدت پسندوں کے ساتھ کسی فورم پر بات نہیں ہوسکتی جبتک وہ تکفیریت کا انکار اور سب کو مسلمان ڈکلیئر نہیں کرتے۔ یاد ہے آپ نے اسی پرانے بیانیے کی روشنی میں ایک ٹی وی پروگرام میں لدھیانوی کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا اور پروگرام دو مختلف حصوں میں الگ الگ بٹھا کر ریکارڈ کیا گیا تھا اور اینکر پرسن نے ببانگ دہل کہا تھا لدھیانوی تو شہیدی صاحب کے ساتھ بیٹھنا چاہتا تھا لیکن شہیدی صاحب نے انکار کر دیا ہے۔

دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف آپ اکیلے نہیں قبلہ آپ کے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے۔ اس دہشت گردی اور شدت پسندی نے قوم کی بچیوں کے سہاگ اجاڑے ہیں, ماؤں کی گودیں اجاڑی ہیں, بچوں کو یتیم کیا ہے، ہم بطور قوم کیسے دہشت گردی سے مقابلہ کرنے والے کسی فرد یا جماعت کو اکیلا چھوڑ سکتے ہیں. مگر آغا صاحب ہم اتنا اعتراض کرنے کا حق تو رکھتے ہیں نا کہ مقتدر ریاستی ادارہ ہمارے قاتلوں کو ہی کیوں پروموٹ کر رہا اور ساتھ ہمارے علماء کو بھی اسی صف میں قرار دے رہا ہے، یعنی قاتل و مقتول کو ایک جیسا تصور کر رہا اور ہم اس جیسے وفود میں شریک ہوکر اپنی یہ حیثیت یعنی مساوی تکفیریت و شدت پسندی عملاً قبول کیونکر کرتے جا رہے ہیں، ہم تو اس مجبوری کو جاننا چاہتے ہیں۔؟
ابو محمد
Iran, Islamic Republic of
احسنت ابو محمد
البتہ صرف شھیدی صاحب قصور وار نہیں، ان سے بڑے عارف واحدی اور ان سے بھی بڑے تو افتخار شاہ صاحب ہیں.
ہماری پیشکش