0
Monday 31 Dec 2018 11:58

گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں 21 ترامیم کی تجویز

گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں 21 ترامیم کی تجویز
اسلام ٹائمز۔ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں مجموعی طور پر 21 ترامیم کی تجویز دیدی ہے۔ مجوزہ ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے، جسے سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آرڈر 2018ء سے پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951ء کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے، اس تجویز کے منظور ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے شہری پاکستان کے شہری تصور نہیں ہونگے۔ مجوزہ ڈرافٹ میں جی بی آرڈر 2018ء کے آرٹیکل 75 میں ترمیم کرکے جی بی سپریم ایپلٹ کورٹ کے چیف جج کی تقرری چیئرمین گلگت بلتستان کونسل (وزیراعظم پاکستان) چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کے بعد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سپریم ایپلٹ کورٹ کے ججوں کی تقرری کی مدت کو تین سال بڑھا کر پانچ سال کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے، جبکہ سپریم ایپلٹ کورٹ کیلئے بجٹ وفاقی حکومت کونسل کے ذریعے مہیا کرے گی۔

مجوزہ ترامیم کے مطابق گلگت بلتستان کونسل کو مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے گا اور وزیراعظم چیئرمین جی بی کونسل ہونگے۔ وفاقی وزیر قانون اور صوبائی وزیر قانون بلحاظ عہدہ گلگت بلتستان کونسل کے نان ووٹنگ ممبرز ہونگے، (اس سے قبل یہ دونوں کونسل کے ممبر نہیں تھے) جبکہ کونسل کے منتخب ممبران کی مدت پانچ سال ہی ہوگی اور کونسل کو اپنے رولز آف بزنس بنانے کے اختیارات بھی حاصل ہونگے، کونسل کا کنسولیڈیٹڈ فنڈ جو آرڈر 2018ء کے تحت ختم کیا گیا تھا، کو بھی بحال کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔ وفاقی وزیر امور کشمیر جی بی کونسل سیکرٹریٹ کا انچارچ ہوگا، چیئرمین کونسل اپنے فرائض کی انجام دہی کونسل سیکرٹریٹ کے ذریعے کرینگے۔ مجوزہ ترمیم کے تحت کونسل کے چیئرمین اپنے اختیارات کسی بھی ماتحت آفیسر کو تفویض کرسکیں گے۔ اگر کونسل کے بجٹ ریونیو میں کمی بیشی ہو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے وفاقی حکومت اس کو گرانٹ ان ایڈ فراہم کریگی اور بجٹ کی منظوری چیئرمین کونسل دینگے۔

آرڈر 2018ء میں جہاں جہاں لفظ ”وزیراعظم” استعمال ہوا ہے، وہاں وہاں ”چیئرمین جی بی کونسل” پڑھا اور لکھا جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ مجوزہ ترمیم میں گلگت بلتستان کے آڈیٹر جنرل کے حوالے سے تجویز دی گئی ہے کہ جس کے مطابق گورنر گلگت بلتستان جی بی کونسل کی سفارش پر آڈیٹر جنرل کا تقرر کریگا، جب تک گلگت بلتستان کا باقاعدہ آڈیٹر جنرل کا تقرر عمل میں نہیں آتا، تب تک چیئرمین کونسل (وزیراعظم) آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو جی بی کے بھی آڈیٹر جنرل کے فرائض سرانجام دینے کیلئے کہیں گے۔ مجوزہ ڈرافٹ میں جی بی آرڈر 2018ء کے آرٹیکل 121 کے تحت گلگت بلتستان کونسل کے اثاثہ جات جو کہ حکومت گلگت بلتستان کو منتقل ہونے تھے، اس آرٹیکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جی بی آرڈر 2018ء کے آرٹیکل 60 کے مطابق گلگت بلتستان اسمبلی اور وزیراعظم پاکستان دونوں کو یکساں قانون سازی کے اختیارات حاصل تھے، اب مجوزہ ڈرافٹ میں قانون سازی کے اختیارات وزیراعظم کی بجائے کونسل اور اسمبلی کو دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے آرٹیکل117 کے مطابق رولز بنانے کا اختیار جو کہ پہلے گورنر اور وزیراعظم کو حاصل تھا، اب یہ اختیارات ”چیئرمین کونسل” کو حاصل ہونگے۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے وکلاء کا بنیادی مطالبہ تھا کہ گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے عمل میں لائی جائے جبکہ مجوزہ ترامیم میں اس کا سرے سے ہی کوئی ذکر نہیں، تاہم صرف چیف جج کی تقرری چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سماعت میں جب اٹارنی جنرل پاکستان نے مجوزہ ڈرافٹ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا تو چیف جسٹس نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس ڈرافٹ کو مزید بہتر بنانے کیلئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی اور اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں 24 دسمبر سے پہلے جمع کروانی تھی، لیکن سرمائی چھٹیوں کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس کی سماعت نہ ہوسکی تھی۔ آئندہ چند روز میں کیس کی سماعت کا امکان ہے، جس میں اٹارنی جنرل اسی مجوزہ ڈرافٹ کو عدالت میں پیش کریگا۔ تاہم یہ بات واضح نہ ہوسکی کہ گلگت بلتستان حکومت اور جی بی بار کونسل اس ڈرافٹ سے کس حد تک مطمئن ہیں یا ان کے مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے 1999ء کے فیصلے میں گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کا شہری قرار دیا تھا، عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکا، جس کیخلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی زیر سماعت ہے، گورننس آرڈر 2009ء میں گورنر گلگت بلتستان کونسل کے وائس چیئرمین تھے، لیکن جی بی آرڈر 2018ء میں کونسل کے اختیارات ختم کئے گئے تو وائس چیئرمین کا عہدہ بھی ختم کیا گیا، مجوزہ ڈرافٹ میں اس حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت جی بی کونسل کی بحالی کی سخت مخالف ہے اور انہوں نے جی بی آرڈر 2018ء کے ذریعے کونسل کے کافی اختیارات ختم کرکے اسے صرف ایک مشاورتی باڈی کی حیثیت دی تھی۔ مجوزہ ڈرافٹ میں سپریم ایپلٹ کورٹ کے ججز کی پنشن بحال کرنے کے حوالے سے کوئی احکامات نہیں، کیونکہ جی بی آرڈر 2018ء میں سپریم ایپلٹ کورٹ کے ججز کو پنشن کا حقدار قرار نہیں دیا گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 769533
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش