0
Wednesday 16 Jan 2019 13:25

قبائلی اضلاع میں 2018ء کے دوران سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے

قبائلی اضلاع میں 2018ء  کے دوران سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے
اسلام ٹائمز۔ فاٹا ریسرچ سنٹر (ایف آر سی) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 2018ء کے دوران سکیورٹی کی صورتحال میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ ایف آر سی کی طرف سے جاری کردہ سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2018ء کے دوران قبائلی اضلاع میں تشدد کے کل 264 واقعات رونما ہوئے جن میں 127 دہشت گردی جبکہ 137 دہشت گردی کے سدباب کے واقعات شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2017ء کے مقابلے میں یہ شرح کم رہی جس میں تقریبا 325 واقعات رونماء ہوئے تھے جن میں 153 دہشت گردی کے اور 172 کاؤنٹر ٹیررزم کے واقعات شامل ہیں، یعنی 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فیصد جبکہ کاؤنٹر ٹیررازم کے واقعات میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔ ایف آر سی کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دہشت گردی کے 127 واقعات میں 63 حملے سکیورٹی فورسز پر ہوئے ہیں، 58 حملوں میں سویلین کو نشانہ بنایا گیا، 5 حملے امن لشکروں جبکہ لڑائی کا ایک واقعہ دہشت گرد تنظیموں کے آپس میں رپورٹ کیا گیا۔

ایف آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں 152 افراد جاں بحق اور 214 زخمی ہوئے۔ اس کے مقابلے میں 2017ء کے دوران پیش آنے والے واقعات میں 75 افراد قتل جبکہ 117 عام شہری زخمی ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد بے گھر افراد کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ 2018ء کے دوران شمالی وزیرستان سے دہشت گردی کے 58 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اس سے پہلے سال27 واقعات رونما ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق باجوڑ دوسرے نمبر پر رہا جہاں دہشت گردی کے 21 واقعات رونماء ہوئے، خیبر اور ساؤتھ وزیرستان سے بالترتیب 18 اور 16 واقعات جبکہ اورکزئی میں صرف 3 واقعات رپورٹ ہوئے تاہم قبائلی اضلاع میں عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کا تناسب کچھ زیادہ رہا۔ ایف سی آر کے ساتھ منسلک سکیورٹی امور کے ماہر عرفان الدین کے مطابق 2018ء میں سکیورٹی فورسز کی مؤثر کارروائیوں اور آپریشن کے بعد قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر جبکہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک خراب اور کمزور ہوا ہے۔

انہوں نے کالعدم تحریک طالبان کے بلوچ شدت پسندوں کے ساتھ رابطوں اور اتحاد کی صورت میں مستقبل میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز اور ملک کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے پڑوسی ملک چین کے شہریوں پر حملوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فضل اللہ کی ہلاکت کو ٹی ٹی پی کیلئے ایک بڑا جھٹکا تصور کیا جاتا ہے تاہم نئے سربراہ نور ولی محسود کی وجہ سے تنظیم مضبوط ہو رہی ہے جن کی کوششوں سے اب محسود طالبان اور بلوچ تنظیم کے درمیان قربت پیدا ہو رہی ہے جس سے ان تنظیموں کے استعداد کار میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب قبائلی اضلاع میں عام شہریوں، سکیورٹی فورسز پر اور بلوچستان میں چین کے شہریوں پر حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 772390
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش