0
Monday 21 Jan 2019 19:09
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے جے آئی ٹی مسترد کر دی

ملک میں داعش نہیں ہے تو پھر ساہیوال میں داعش کیسے آئی؟ رحمٰن ملک

ملک میں داعش نہیں ہے تو پھر ساہیوال میں داعش کیسے آئی؟ رحمٰن ملک
اسلام ٹائمز۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹ گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)  کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ سینیٹر رحمان ملک کے زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس ہوا۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سانحہ ساہیوال پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ کمیٹی اراکین نے سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے لئے دُعا کی اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔ کمیٹی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی کمیٹی درست نہیں ہے آئی جی پنجاب کی سرپرستی میں جے آئی ٹی کام نہیں کریگی۔ آزاد جے آئی ٹی ہائیکورٹ اور سیشن ججز کی سربراہی میں بنائی جائے۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پنجاب حکومت سانحہ ساہیوال پر جو بھی تفتیش کرے گی وہ کمیٹی کے ساتھ شیئر کی جائے گی اور کمیٹی رپورٹ کا مکمل جائرہ لے گی۔

تفصیلات کیمطابق سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ آئی جی پولیس و ہوم سیکرٹری پنجاب قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ایک ہفتے میں سانحہ ساہیوال پر جامع رپورٹ پیش کرے، انہوں نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی تفتیش کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا تاکہ مجرموں کو عبرت ناک سزا ملے۔ سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ آئی جی پولیس و ہوم سیکرٹری پنجاب کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے 11 سوالات کے جوابات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتولین و ان کے خاندان کی مکمل پروفائل کمیٹی کو جمع کرائی جائے، کیا مقتولین و خاندان کے خلاف کبھی کسی کی جانب سے کوئی ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی یا نہیں؟ چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ کیا مقتولین یا اس کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی تھی یا خاندان کے اندر کوئی تنازعہ چل رہا تھا؟ سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ جب مقتولین نے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس کے کہنے پر سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی تو فائرنگ کیوں کی گئی اور مقتولین کی جانب سے کسی مزاحمت و جوابی فائرنگ کے بغیر کیسے پولیس نے 4 افراد کو قتل کیا؟

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 13 سالہ لڑکی کو اس لئے قتل کیا گیا کہ قتل کے عینی شاہد کو ختم کیا جائے؟ کیا مقتولین کے خلاف کوئی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ موجود تھی؟ اور اگر تھی تو کیا تھی؟ سینیٹر رحمٰن ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا مقتولین یا خاندان کا کسی بااثر شخصیت کے ساتھ کوئی تنازعہ یا دشمنی تو نہیں چل رہی تھی؟ کیا پولیس مقابلہ قانون کے مطابق کسی سینئر پولیس افسر کی زیر نگرانی ہوا؟ اور پولیس مقابلے کے احکامات کسی سینئر پولیس افسر نے دیئے تھے؟
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ پولیس مقابلہ دن دیہاڑے میں ہائی وے روڈ پر کیسے ہوا کہ جسے دنیا دیکھتی رہی؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، قائمہ کمیٹی کو مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے سارے فوٹیجیز فراہم کرے، جبکہ کمیٹی پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کی باقاعدہ تفتیش اور معائنہ کرے گی۔ سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ واقعہ ساہیوال انتہائی افسوسناک، دردناک اور قابل مذمت ہے، اس واقعے سے عوام میں خوف و ہراس اور بےچینی پھیل گئی۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اس واقعے کا مکمل و قانونی جائزہ لے گی اور لائحہ عمل تیار کرے گی، تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پولیس مقابلے کرنا اور لوگوں کو مارنا قانون کی خلاف ورزی ہے، پولیس مقابلے کی اپنی ایس او پی ہے، جس پر عمل در آمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں ںے مزید کہا کہ ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو سانحہ ساہیوال کی تفتیش کرے۔ سانحہ ساہیوال انتہائی دردناک ہے اور انصاف ہونے تک کمیٹی اسکی پیروی کرتی رہے گی، جبکہ مقتولین کی گاڑی سے فائرنگ کئے جانے کا کوئی ثبوت  نہیں ملا ہے۔ رحمان ملک نے سوال اٹھایا کہ اگر ذیشان کالعدم داعش کا دہشتگرد تھا تو کیا پولیس نے کبھی اس کے گھر چھاپہ مارا، اور سی ٹی ڈی نے حراست میں لینے کے لئے کون سی کوششیں کیں؟ اور کس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ذیشان کا تعلق دہشتگرد تنظیم سے تھا۔
 
خبر کا کوڈ : 773355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش