0
Wednesday 23 Jan 2019 22:57

سانحہ ساہیوال پی ٹی آئی حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس

سانحہ ساہیوال پی ٹی آئی حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس
تحریر: ایم ایس نقوی

سانحہ ساہیوال تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے، وزیراعظم عمران خان نے واضح اعلان کیا ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے ہاتھوں ساہیوال میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران میاں، بیوی، بیٹی اور ڈرائیور کے قتل کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، جبکہ بچ جانے والے معصوم بہنوں اور بھائی کی کفالت کی تمام ذمہ داری حکومت اٹھائے گی۔ انھوں نے دکھ اور سخت صدمے کا اظہار بھی کیا، لیکن ان کی حکومت میں شامل وفاقی اور صوبائی وزراء کا بیانیہ کچھ اور ہے، جو اس سانحہ کو مزید تکلیف دہ بنا رہا ہے، صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت، صوبائی وزراء فیاض الحسن چوہان، اسلم اقبال اور وفاقی وزراء فواد چوہدری وغیرہ کبھی سانحہ کے شکار کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور کبھی انہیں داعش کا رکن قرار دے رہے ہیں، بلکہ ان وزراء باتدبیر نے تو جائے وقوعہ سے خودکش جیکٹس، گرنیڈ بم اور اسلحہ بھی برآمد کروا دیا ہے، وہ تو بھلا ہو سماجی رابطوں اور میڈیا کا کہ جنہوں نے اس اندروہناک سانحہ کی لمحہ بہ لمحہ فوٹیج اور عینی شاہدین کے بیانات سے ان تمام سرکاری بیانیہ کو یکسر جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا ہے۔

شاہد یہی وجہ ہوگی کہ بادل نخواستہ اس سانحہ کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد پولیس کے پانچ بڑے افسروں کو معطل اور ٹرانسفر بھی کر دیا ہے، سانحے میں مرنے والا ذیشان ابھی تک سکیورٹی اداروں کے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے، سی ٹی ڈی نے اس کی تفتیش کے لئے مزید وقت مانگا ہے، جبکہ قبل ازیں وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی ساہیوال پہنچ گئے اور سانحہ کے متعلق معلومات حاصل کیں اور زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں کو سرخ پھولوں کا گلاستہ بھی پیش کیا، ایسے موقعہ پر پھول پیش کرنے اور کروانے والوں کو بھی سرخ سلام ہی ہوسکتا ہے، تاہم وزیراعلیٰ نے سانحہ کے تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعادہ کیا ہے، جس کے لئے ایک جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اب یہ جے آئی ٹی کیا لنکا ڈھائے گی یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا، کیونکہ اس قسم کے سانحات کے نتیجہ میں بننے والی اس قسم کی ٹیمیں وقوعہ کا جو حلیہ بگاڑتی ہیں، وہ ابھی سے ہی نظر آ رہا ہے۔

جے آئی ٹی نے عینی شاہدین کا بیان موقعہ پر لینے کی بجائے انہیں پولیس لائن ساہیوال میں طلب کیا ہے، اب اس سے نتائج کے بارے میں خود آگاہی ہوسکتی ہے، شاہد یہی خدشات ہیں، جن کی وجہ سے مقتول خلیل کے بھائی نے پولیس یا پھر جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے انصاف کی اپیل کی ہے اور حکومت پنجاب کی طرف سے دو کروڑ روپے کی امداد بھی لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ عام لوگوں کا ایسے ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے، جو حکومت وقت اور ریاست کے ستونوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیے، لیکن یہ دکھ اس وقت بڑھ جاتا ہے، جب ریاستی ادارے اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اس وقوعہ میں بھی جہاں سی ٹی ڈی جیسے ادارے کی قابلیت کا پول مکمل طور پر کھل چکا ہے، ان کی ماضی میں ہونے والی کارروائیوں پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔

کیونکہ ساہیوال سانحہ میں متعدد ادارے، عینی شاہدین اور سابق پولیس افسران نے سی ٹی ڈی کو ہی قصور وار گردانتے ہوئے جاں بحق ہونے والوں کو بے قصور قرار دیا ہے، جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر آرہی ہے کہ مذکورہ آپریشن کمزور خفیہ اطلاع پر کیا گیا، اب ان حالات کی روشنی میں تحریک انصاف کی حکومت اپنی ساکھ بچانے کے لئے مظلوموں کا ساتھ دیتی ہے؟، سرکاری ادارہ بچانے کی کوشش کرتی ہے، عوامی رائے کا احترام کرتی ہے یا پھر وزراء اور اپنے ادارے کے کمزور موقف کو مانتی ہے، یہ کلی طور پر ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، اس کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ اس سانحہ کے بعد حکومت کو سیاسی طور پر کیا حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اس سانحہ کی وجہ سے عوام کے مہنگائی والے زخموں سے بھی پانی رسنا شروع ہوچکا ہے، جس کے لئے حکمران جماعت کو سوچ سمجھ کر حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، وزراء کے بے باک بیانات کا بھی نوٹس لینا ہوگا، جو ریاست کے شہریوں کو متنفر کرنے کے بیانیے پر عمل پیرا ہیں جو کہ خطرناک ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773861
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش