0
Monday 18 Feb 2019 12:50

پشتو غزل کے بادشاہ امیر حمزہ شنواری کو دنیا سے گزرے 25 سال بیت گئے

پشتو غزل کے بادشاہ امیر حمزہ شنواری کو دنیا سے گزرے 25 سال بیت گئے
اسلام ٹائمز۔ پشتو کے معروف قوم پرست شاعر، ادیب اور افسانہ نگار امیر حمزہ خان شنواری کو دنیا سے گزرے 25 سال بیت گئے۔ حمزہ شنواری 1907ء کو لنڈی کوتل میں ملک باز میر خان کے ہاں پیدا ہوئے، ان کی عمر تین برس سے بھی کم تھی کہ  والدہ انتقال کرگئیں۔ والدہ کی وفات کے بعد ان کی تربیت ان کی سوتیلی ماں نے اس انداز میں کی کہ حمزہ شنواری کو کبھی بھی یتیم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ 1935ء میں جب پشاور سیکرٹریٹ کے اندر آل انڈیا ریڈیو کی شاخ قائم ہوئی تو اس کیلئے حمزہ شنواری نے ’’زمیندار‘‘ کے نام سے پہلا ڈرامہ لکھا، اس کے بعد انہوں نے پشاور ریڈیو کیلئے سیکڑوں ڈرامے، فیچرز اور تقریریں لکھیں۔ بحیثیت مترجم انہوں نے رحمان بابا کی 204 غزلوں کا اردو جبکہ علامہ اقبال کے جاوید نامہ اور ارمغان حجاز کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا۔ انہیں 1940ء میں ایک مشاعرے کے دوران پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادیب سمندر خان سمندر نے پشتو غزل کے بادشاہ کے خطاب سے نوازا۔

حمزہ بابا کی ایک انفرادیت یہ بھی رہی کہ ساری عمر اپنے قومی اور سادہ قبائلی لباس میں ملبوس رہے۔ وہ 35 کتابوں کے مصنف تھے، جن میں تصوف، شاعری، نفسیات،ثقافت اور ادب کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں شامل ہی۔ ان کا لکھا ہوا ناول ’’نوے چپے‘‘ (نئی موجیں) چودہ ابواب پر مشتمل مشہور ناول ہے، جس کا مرکزی خیال پختون اتحاد پر مبنی ہے۔ حمزہ شنواری نے پشتو میں مکتوب نگاری کی صنف میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ان کے بیشتر اشعار ضرب المثل کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں، وہ انگریزی روزنامہ ’’خیبر میل‘‘ کے پشتو صحفے کے انچارج بھی رہے اور اس کیلئے روزانہ مختلف معاشرتی اور ادبی موضوعات پر ’’ژور فکرونہ‘‘ (گہری سوچیں) کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے۔ بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری 87 سال کی عمر میں 18 فروری 1994ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔
خبر کا کوڈ : 778645
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش