0
Wednesday 27 Feb 2019 18:34

بشار الاسد کے دورہ تہران کا مطلب شام پر مسلط کردہ پراکسی وار کی مکمل شکست ہے، حسن کاظمی قمی

بشار الاسد کے دورہ تہران کا مطلب شام پر مسلط کردہ پراکسی وار کی مکمل شکست ہے، حسن کاظمی قمی
اسلام ٹائمز۔ ایران کے عراق میں سابق سفیر حسن کاظمی قمی نے شام کے صدر بشار الاسد کے دورۂ تہران کو دونوں ممالک کے گہرے اسٹریٹجک تعلقات کی مضبوطی کیلئے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام صدر کا بے انتہاء خطرات کے باوجود بآسانی ایران کا دورہ کرکے واپس چلے جانا دونوں ممالک کی جانب سے اپنے علاقے میں مکمل سکیورٹی کنٹرول کو ظاہر کرتا ہے۔ عراق میں بعثی حکومت کے سقوط کے بعد جمہوری حکومت میں تعینات ہونے والے پہلے ایرانی سفیر حسن کاظمی قمی نے ایسنا نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد کی گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی اور صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ پہلی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے سے دنیا کو انتہائی اہم پیغام ملا ہے، جس کے بہت ہی موثر نتائج برآمد ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ کہ یہ دورہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شام کے دشمنوں کی طرف سے گذشتہ کئی سالوں سے تیار کی گئی تمام تر سازشیں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ وہ تو چاہتے تھے کہ بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے پراکسی وار کے ذریعے ایک منتخب اور قانونی حکومت کا تختہ الٹ دیں، جبکہ اس سیاسی نظام نے مقاومت، ایران اور روس کی حمایت اور شامی حکومت کی مرکزیت کی بدولت دشمن کو اس کے مقصد میں بری طرح ناکام کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حال حاضر اور مستقبل میں علاقے کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے یہ شکست ان کے لئے عبرت کا ایک درس ہے۔ ماضی قریب میں علاقے کے اندر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ایک انتہائی غلط رواج عملی شکل اختیار کر رہا تھا اور وہ یہ کہ جو نظام حکومت بھی ان کے لئے ناپسند ہوتا، وہ کسی بھی غیر قانونی طریقے سے اس کا تختہ الٹ دیتے، لیکن پھر یہی ٹولہ عوامی مقاومت، شامی حکومت اور بشار الاسد اور اس کے حامیوں کے سامنے بری طرح شکست سے دوچار ہو جاتا ہے۔ سابق سفیر نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں یہ دورہ کہ جب امریکہ شام سے اپنے فوجی واپس بلانے پر مجبور ہے، یہ پیغام دیتا ہے کہ پورے علاقے اور بالخصوص شام میں امریکی سیاست ناکام ہوچکی ہے۔ آج امریکہ کے حمایت یافتہ دہشتگرد گروپس اپنی خود ساختہ حکومت بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں، جبکہ دوسری طرف مقاومتی اتحاد روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ساری دنیا اور خاص طور پر علاقے کے وہ عرب ممالک، جو کل تک شام کے ساتھ جنگ کی حالت میں تھے، دمشق میں اپنے سفارتخانے بحال کرنے کے لئے گویا ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں، جبکہ دوسری طرف مقاومتی اتحاد نے اپنا ہدف بخوبی حاصل کر لیا ہے، جو شام کے سیاسی نظام کی حفاظت اور امریکہ کے اس غلط رویئے کا خاتمہ تھا، جو اس نے بعض ممالک کو برباد کرنے کے لئے اپنا رکھا تھا۔

انہوں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آج شام میں حاکم سیاسی نظام نے بین الاقوامی سطح پر اپنی قانونی حیثیت کو دوبارہ منوا لیا ہے، جبکہ آج دنیا نے یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت قانونی اور نافذ ہے۔ انہوں نے موجودہ صورتحال میں بشار الاسد کے ایران کے دورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا جیسا کہ ان کی رہبر معظم سے ملاقات کے دوران بھی یہ بات کہی گئی؛ بشار الاسد اب عرب دنیا کے ہیرو ہیں اور عرب ممالک کے عوام اس بات پر اپنے اوپر فخر کرسکتے ہیں کہ آج جب اکثر عرب ممالک استبدادی طاقتوں کے زیرنگیں ہیں؛ ان کے درمیان ایک ایسا طاقتور رہبر بھی موجود ہے، جو اپنے عوام اور آزاد ملک کے قومی مفاد کا بھرپور انداز میں دفاع کرسکتا ہے۔ حسن کاظمی قمی نے کہا کہ یہ سفر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی اپنے دعوے کے خلاف علاقے میں اب ہر طریقے سے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ علاقے میں روز بروز امریکی دبدبہ اور طاقت کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تہران اور دمشق کے باہمی روابط نے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود یہ واضح کر دیا ہے کہ ایران مقاومتی بلاک اور مظلوم عوام کا سب سے بڑا حمایتی ہے، جبکہ وہ نفسیاتی جنگ بھی کہ جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ایران علاقائی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، بشار الاسد کے دورۂ تہران اور ان کے اظہار تشکر سے شکست سے کھا گئی ہے۔ اس دورے نے یہ بھی عیاں کر دیا ہے کہ ایران جو کہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے والا ملک ہے، اپنے علاقے میں ایک اہم کھلاڑی شمار کیا جاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس دورے سے ان ممالک کو بھی بہت سے پیغامات ملیں گے، جو آج بھی امریکہ کے ساتھ ملی بھگت کرنے کی خواہش اپنے دل میں لئے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 780466
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش