0
Wednesday 6 Mar 2019 19:11

داعش کیخلاف جنگ میں کسی امریکی فوجی نے شرکت نہیں کی، برہم صالح

داعش کیخلاف جنگ میں کسی امریکی فوجی نے شرکت نہیں کی، برہم صالح
اسلام ٹائمز۔ عراقی صدر برہم صالح نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے گذشتہ عراقی آمر صدام کے زمانے میں آمریت کے مخالفین کو پناہ دے رکھی تھی اور اب داعش کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے عراقی افواج کی پشت پناہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عراق کے صدر نے ایرانی صدر حسن روحانی کے دورۂ عراق کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے جس ملک کا بھی دورہ کیا، جان بوجھ کر اس بات کی تکرار کی کہ عراق کی مصلحت "ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات کو استوار کرنے" میں ہے۔ جناب برہم صالح نے اپنے ایرانی ہم منصب کے مستقبل قریب میں ہونے والے دورۂ عراق سے قبل اس کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے "السلام" محل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ صدر روحانی کا دورۂ بغداد بہت اہم ہوگا۔ میں جب (کچھ ماہ قبل) ایران کے دورے پر تہران گیا تھا تو کئی ایک موضوعات پر میری ایرانی رہنماؤں کے ساتھ گہری بات چیت ہوئی تھی۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں۔

نیوز ویب سائٹ "الفرات" کی رپورٹ کے مطابق عراقی صدر برہم صالح نے کہا کہ میں جس ملک کے دورے پر گیا، میں نے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی کہ عراق کا فائدہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات استور کرنے میں ہے۔ میں نے جان بوجھ کر اس بات کو بار بار کہا۔ بحیثیت عراق، ہماری مصلحت اسی بات میں ہے کہ ہم ایران کے ساتھ قائم تعلقات کو مضبوط بنائیں اور انہی تعلقات کو علاقے میں اپنے دوسرے روابط کی بنیاد قرار دیں۔ ہم نے ماضی میں آپسی تناؤ کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہمارے آپس کے تعلقات باہمی احترام اور مشترکہ مفاد کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، کیونکہ 1400 کلومیٹر لمبی سرحد نے ہمیں آپس میں جوڑ رکھا ہے، جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی، تمدنی اور اجتماعی تعلقات بھی قائم ہیں۔ عراقی صدر برہم صالح نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے گذشتہ عراقی آمر صدام کے زمانے میں آمریت کے مخالفین کو پناہ دے رکھی تھی اور اب داعش کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے عراقی افواج کی پشت پناہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایران کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہیئے کہ ان تعلقات کی اہمیت سے نہ صرف دنیا کو مطلع کریں بلکہ خود بھی اس پر یقین کر لیں۔

صدر برہم صالح نے 1975ء کے الجزائر معاہدے کے بارے میں کہا کہ میں نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ 1975ء کے معاہدے پر بات چیت کی ہے اور اسی طرح ہم نے عراق اور ایران کے درمیان بہت سے مشترکہ نکات اور مختلف قسم کے امور (میکانیزمز) پر بھی گفتگو کی۔ جیسا کہ ہر حکومت سابقہ حکومت سے کچھ چیزیں ورثے میں حاصل کرتی ہے، اسی طرح 1975ء کا معاہدہ بھی ہماری حکومت کو وراثت میں ملا ہے، جس کے حوالے سے فریقین کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اس بارے میں عراق اور ایران کے درمیان بہت سی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور ہم صدر حسن روحانی کے دورے کے منتظر ہیں۔ ان شاء اللہ اس دورے میں وہ اتفاق نظر حاصل ہو جائے گا، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔ جناب برہم صالح نے اس بات پر تاکید کی کہ عراق کے ایران کے ساتھ تعلقات عرب عمق (Arabic Depth) کی بناء پر استوار نہیں ہیں اور یہ تعلقات نہ ہی عراق کے خلیج کے ساتھ قائم تعلقات اور نہ ہی کسی اور ملک کے ساتھ تعلقات کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف ہماری قوم کے لئے مفید ہیں بلکہ ہر فریق کے لئے فائدہ مند ہیں۔ ہمارا مفاد بھی اسی میں ہے اور میرے خیال میں بہت سے فریق اس واقعیت کو قبول کرنے والے ہی ہیں۔

عراق کے صدر برہم صالح نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ (بیرونی افواج) لڑنے کے لئے نہیں ہیں، حتی داعش کے ساتھ جنگ میں بھی کسی ایک امریکی فوجی نے شرکت نہیں کی، عراق میں جنگ کی غرض سے کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں، جبکہ یہ غیر ملکی فوجی ٹریننگ اور ٹیکنیکل سپورٹ کے لئے عراق میں موجود ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ عراق کے عوام اور حکومتی عہدیداران غیر ملکی پیادہ افواج اور ان کی چھاؤنیوں کی عدم موجودگی پر متفق ہیں، کیونکہ عراق بھی یہ سب کچھ نہیں چاہتا جبکہ اصلی ترین نکتہ یہ ہے کہ عراق کی حاکمیت محفوظ رہے۔ آخر میں انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ابھی داعش پر مکمل فتح حاصل نہیں ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات صحیح ہے کہ محاذ جنگ کے لحاظ سے اور فوجی اعتبار سے داعش ختم ہوگئی ہے، لیکن داعش کے بہت سے عناصر اب بھی آزاد گھوم اور عراق اور شام کے درمیان آ جا رہے ہیں، لہذا ہمیشہ ہمیں تیار رہنا ہوگا، کیونکہ ہمارے سامنے اس فتح کو اقتصادی، سیاسی اور فکری حوالے سے مزید مستحکم کرنے کی ایک لمبی راہ موجود ہے۔
خبر کا کوڈ : 781842
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش